جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وائس چانسلر پروفیسر نجمہ اختر نے کہا کہ نئی قومی تعلیم پالیسی (این ای پی) اعلی تعلیم کے شعبے میں طلباء کے لیے نئے مواقع پیدا کرے گی ۔ اس کے علاوہ وہ بہتر طریقے سے تعلیم حاصل کرسکیں گے۔
' این ای پی طلباء کے لیے نئے مواقع پیدا کرے گی' نجمہ اختر نے کہا کہ قومی تعلیم پالیسی اعلی تعلیم کے شعبے میں طلبا کے لیے نئے مواقع پیدا کرے گی۔ وہ اپنی سہولت اور کیریئر کے انتخاب کے مطابق داخلہ لیں سکتے ہیں۔
اس پالیسی کو ڈیولپ ممالک کے تعلیمی نظام کے برابر بتانے والی شیخ الجامعہ پروفیسر نجمہ اختر نے بھارتی وزیراعظم کی تعریف کی انہوں نے کہا کہ نئی تعلیمی پالیسی سے نہ صرف بچوں کے تعلیم میں بہتری آئے گی بلکہ ان کے بیچ میں تعلیم چھوڑنے کا سلسلہ بھی رکے گا.
انہوں نے مزید کہا کہ این ای پی کی وجہ سے بھارت میں اعلی تعلیم اب سائنس، آرٹس اور انسانیت پر مشترکہ توجہ دینے کے ساتھ ہولسٹک اور متعدد تعلیمی مضامین ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں
انہوں نے کہا کہ' تمام اعلی تعلیمی اداروں کے لیے ایک واحد ریگولیٹر ایک بہت بڑا آئیڈیا ہے کیونکہ اس سے نقطہ نظر اور مقصد کا آپس میں اتفاق ہوگا۔'
نجمہ نے مزید کہا کہ ' اس سے بھارت میں تعلیم کے وژن کا احساس ہوگا۔ این ای پی میں نئی ٹیکنالوجیز کے استعمال پر توجہ مرکوز کرنے سے بھارت میں ڈیجیٹل لرننگ کو فروغ ملے گا۔
ایم ایچ آر ڈی نے تعمیر کے لئے پہلے ہی سویم - آن لائن کورس پلیٹ فارم کے ذریعے ایک فاؤنڈیشن تشکیل دی ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی زیرصدارت مرکزی کابینہ نے بدھ کے روز قومی تعلیمی پالیسی 2020 کی منظوری دی جس کا مقصد اسکول کے بچوں میں سے تقریبا دو کروڑ کو قومی دھارے میں لانا ہے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی طالب علم پر کوئی زبان نہیں عائد کی جائے گی اور سیکنڈری سطح پر بھی کئی غیر ملکی زبانوں میں تعلیم ہوگی۔
گذشتہ روز اسکول کی تعلیم کی سکریٹری انیتا کروال نے میڈیا بریفنگ کے دوران کہا تھا کہ کلاس 10 اور 12 کے لیے بورڈ کے امتحانات جاری رکھے جائیں گے، لیکن اس کی اصلاح کوچنگ کلاس لینے کی ضرورت کو ختم کرنے کے لیے کی جائے گی۔
بورڈ کے امتحانات کو جامع ترقی کی حوصلہ افزائی کے لیے نئے سرے سے ڈیزائن کیا جائے گا اور بنیادی صلاحیتوں اور قابلیت کی جانچ کرکے اسے اور بھی آسان بنایا جائے گا۔
نئی تعلیمی پالیسی کے مطابق طلبا کو کسی بھی تعلیمی سال کے دوران دو مرتبہ بورڈ امتحانات دینے کی اجازت ہوگی ایک اہم امتحان اور ایک اصلاح کے لیے اگر طلبہ چاہیں ۔نئے سسٹم میں 12 سال کی اسکولنگ ہوگی اور اس میں تین سال کی آنگن واڑی اور پری اسکول کی تعلیم بھی شامل رہے گی۔
مرکزی حکومت نے یہ اعلان کیا ہے کہ اب ملک میں اعلی تعلیم کے لیے ایک ہی ریگولیٹر ہوگا اور یہ ایک شفاف خود انکشاف آن لائن نظام پر مبنی ہوگا۔
مرکزی حکومت نے یہ بھی بتایا کہ انڈرگریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ سطحوں پر نصاب کو اس انداز سے تیار کیا جائے گا کہ کثیر الشعبہ تعلیم کو فروغ دیا جاسکے۔ وہ طلبہ جو تحقیق کے حصول کے خواہاں ہیں ان کے لیے ایم فل کی ضرورت نہیں ہوگی۔
اب وزارت انسانی وسائل کی ترقی کو وزارت تعلیم کے نام سے جانا جائے گا اور تعلیمی نظام 2+10 کے بجائے 4+3+3+5 کے طور پر کام کرے گا. غور طلب ہے کہ موجودہ قومی تعلیمی پالیسی سنہ 1986 میں تیار کی گئی تھی جس میں آخری ترمیم 1992 میں ہوئی تھی