دہلی: ایران کے سپریم رہنما آیت اللہ خامنہ ای کے بھارت میں نمائندے آغا مہدی مہدوی پور نے آج میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب مغربی میڈیا کے پروپیگنڈے کا حصہ ہے۔ ایران کی 90 فیصد سے زائد خواتین حجاب کی حمایت کر رہی ہیں اور اسلامی نظام کے تحت زندگی گزارنا چاہتی ہیں۔
آغا مہدی مہدوی پور نے کہا کہ ایران میں خواتین کو تمام حقوق حاصل ہیں جبکہ مغربی میڈیا اس کے بر خلاف دکھانے میں مصروف ہے۔ انہوں نے مہسا امینی کی موت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی پولیس نے مہسا امینی ٹارچر نہیں کیا یہ بات جانچ کے دوران بھی واضح ہو چکی ہے کہ مہسا امینی ماضی سے بیماریوں میں مبتلا رہیں ہیں۔ Agha Mahdi Mahdavipour
انہوں نے کہا کہ اس وقت ایران میں جو حالات آپ دیکھ رہے ہیں جو حجاب کے مسئلے پر ہیں اس کا آغاز مہسا امینی کی موت سے ہوا تھا، میں بتانا چاہتا ہوں کہ مہسا امینی کی موت ایک حادثہ تھی جس کی جوڈیشل انکوائری کی جا رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ امینی کی موت کے بعد 19 ڈاکٹروں کی ٹیم اس کی جانچ کر رہی تھی اس جانچ کے دوران یہ پایا ہے کہ امینی پہلے سے بیمار تھیں ان کی موت کسی مارپیٹ سے نہیں بلکہ ایک میڈیکل ہسٹری کی وجہ سے ہوئی تھی۔ Hijab controversy in Iran is nothing more than propaganda
آغا مہدی مہدوی پور نے کہا کہ مہسا امینی کو آٹھ سال کی عمر سے ہی بیماریاں تھیں جس کی وجہ سے انہیں 8 برس کی عمر میں آپریشن سے بھی گزرنا پڑا تھا۔ مہسا امینی کو جب کاؤنسلنگ کے لیے لے جایا گیا تو وہ گھبرا گئی اور اسی دوران انہیں دل کا دورہ پڑا اس کے بعد ان کی موت ہوگئی۔ ان کا کہنا تھا جو لوگ یہ کہ رہے ہیں کہ ایران میں خواتین حجاب کے خلاف سڑکوں پر ہیں تو میں آپ کو یہ واضح کردوں کہ احتجاج کرنے والی خواتین کی تعداد بہت کم ہے حجاب کو چاہنے والی عورتیں اور اسلامی نظام کے تحت زندگی گزارنے والی خواتین کی تعداد لاکھوں میں ہے۔