انہوں نے کہا کہ 'این پی آر اور این آر سی کے تحت عوام سے اپنی شہریت ثابت کرنے کو کہا جائے گا۔ نوے فیصد لوگوں کے پاس یہ ثابت کرنے کے لیے کوئی سرکاری پیدائشی سند نہیں ہے۔ کیا سب کو ڈٹینشن سینٹر بھیجا جائے گا؟ یہ سب کو ڈر ستا رہا ہے۔ مرکز سے میری اپیل ہے کہ این پی آر اور این آر سی کو روک دیا جائے۔'
غور طلب ہے کہ آج عام آدمی پارٹی حکومت نے جمعہ کے روز دہلی اسمبلی کا اہم اجلاس طلب کیا جس میں کابینی وزیر گوپال رائے نے قومی آبادی رجسٹر کے خلاف تجویز پیش کی۔
گوپال رائے نے کہا کہ پارلیمنٹ میں وزیر داخلہ نے یقین دہانی کرائی ہے کہ قومی آبادی رجسٹر کا این آر سی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ امت شاہ نے پہلے کہا تھا کہ پہلے سی اے اے آئے گا اور پھر این آر سی اور اس کے بعد این پی آر آئے گا لیکن اب یہ کہہ رہے ہیں کہ این پی آر کا این آر سی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
آسام میں این آر سی کے سبب 19 لاکھ لوگ بھارتی شہریت سے محروم ہوگئے جس میں پانچ لاکھ مسلم اور 14 لاکھ ہندو شامل ہیں۔
این آر سی کو لے کر لوگوں میں خوف ہے۔ این آر سی کی اسکرپٹ این پی آر کے ذریعے لکھی جا رہی ہے لیکن وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ این پی آر کا این آر سی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
سنہ 1955 کے قانون کے بعد سنہ 2003 میں اٹل بہاری واجپئی کی حکومت نے سی اے اے کے قانون میں تبدیلی کی، جس میں این پی آر بنانے کو کہا۔ این پی آر کا ڈاٹا لوکل لیول پر بنے گا۔ کالم میں اگر انفارمیشن دینی ہے تو دو، کسی کو ڈاؤٹ فل کیٹیگری میں نہیں رکھا جائے گا، ایسا وزیر داخلہ نے پارلیمنٹ میں کہا تھا۔
پارلیمنٹ میں این آرسی نافذ کرنے سے قبل این پی آر تیار کیا جائے۔ اس کی بنیاد پر ہی این آر سی نافذ کیا جائے گا۔ الگ۔ الگ بیانات کے سبب لوگوں میں شک پیدا ہو رہا ہے۔
اپنے بیان میں گوپال رائے نے کہا کہ 'این پی آر، این آر سی کا کسی مذہب و سوسائٹی سے تعلق نہیں ہے، یہ سبھی کے لیے ہے۔ آسام میں 14 لاکھ ہندؤں کو باہر کر دیا۔'
انہوں نے کہا کہ 'این پی آر اور این آر سی کو واپس لینا چاہیے۔ این پی آر کے پوری مشق کو روک کر سنہ 2010 کی شکل میں نافذ کرنا چاہیے۔'