اردو

urdu

ETV Bharat / state

جمعیۃ علماء ہند کی مجلسِ عاملہ کے اجلاس میں مختلف مسائل پر غور وخوض

مولانا مدنی نے کہا کہ 'آزادی کے بعد آنے والی تمام سرکاروں نے ایک طے شدہ پالیسی کے تحت مسلمانوں کو تعلیم کے میدان سے باہر کردیا، یہ افسوسناک صورتحال کیوں پیدا ہوئی اور اس کے کیا اسباب ہوسکتے ہیں؟ اس پر ہمیں سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔

جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ کا اجلاس اختتام پذیر
جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ کا اجلاس اختتام پذیر

By

Published : Aug 30, 2021, 7:37 PM IST

آج مرکزی دفتر جمعیۃ علماء ہند کے مفتی کفایت اللہ میٹنگ ہال میں جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی کی زیر صدارت میں جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ کا ایک اہم اجلاس منعقد ہوا۔

اس اجلاس میں ملک کے موجودہ حالات اور قانون وانتظام کی بدتر صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا اور ساتھ ہی دوسرے اہم ملی اور سماجی ایشوز اور لڑکے لڑکیوں کے لئے اسکول وکالج کا قیام اور خاص طور پر لڑکیوں کے لئے دینی ماحول میں علاحدہ تعلیمی ادارے کا قیام و اصلاح معاشرہ کے طریقہ کار پر تفصیل سے غور وخوض ہوا۔

اس اجلاس میں ممبران نے تمام مسائل پر کھل کر تبادلہ خیال کیا۔ لاک ڈاؤن میں جمعیۃ علماء ہند کی بے لوث خدمات، ریلیف و بازآبادکاری اور ملزمین کی قانونی اور سماجی مدد، تبلیغی جماعت پر منفی پروپیگنڈہ کرنے والوں کے خلاف جمعیۃ علماء ہند کی قانونی جدوجہد وغیرہ کی وجہ سے ماضی کے مقابلے میں جمعیۃ کی طرف نئے لوگوں کا رجحان بڑھا ہے، جس کی وجہ سے جمعیۃ کی ممبرشپ حاصل کرنے کے لئے لوگ بہت زیادہ دلچسپی دکھارہے ہیں اور ہر صوبے میں جمعیۃ دفاتر سے نئے لوگوں کی ایک بڑی تعداد مستقل رابطے میں ہے۔

واضح رہے کہ پچھلے ٹرم میں جمعیۃ کے ممبران کی تعداد تقریباً ایک کڑوڑ پندرہ لاکھ تھی جب کہ اس سال اس تعداد میں اضافے کے امکانات ہیں۔ جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ نے لاک ڈاؤن کی وجہ سے اس ٹرم کی ممبر سازی کی مدت میں 15/اکتوبر تک کی توسیع کا اعلان کیا ہے۔

مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ 'پورے ملک میں جس طرح کی مذہبی اور نظریاتی محاذ آرائی اب شروع ہوئی ہے اس کا مقابلہ کسی ہتھیار یا ٹکنالوجی سے نہیں کیا جاسکتا اس سے مقابلہ کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کو اعلیٰ تعلیم سے مزین کرکے اس لائق بنادیں کہ وہ اپنے علم اور شعور کے ہتھیار سے اس نظریاتی جنگ میں مخالفین کو شکست سے دو چار کرکے کامیابی اور کامرانی کی وہ منزلیں سرکرلیں جن تک ہماری رسائی سیاسی طور پر محدود اور مشکل سے مشکل تر بنادی گئی ہے۔'

مولانا مدنی نے کہا کہ 'آزادی کے بعد آنے والی تمام سرکاروں نے ایک طے شدہ پالیسی کے تحت مسلمانوں کو تعلیم کے میدان سے باہر کردیا، یہ افسوسناک صورتحال کیوں پیدا ہوئی اور اس کے کیا اسباب ہو سکتے ہیں؟ اس پر ہمیں سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں نے خود جان بوجھ کر تعلیم سے کنارہ کشی اختیار نہیں کی،کیونکہ اگر انہیں تعلیم سے رغبت نہ ہوتی تو وہ مدارس کیوں قائم کرتے؟'

مولانا مدنی نے کہا کہ 'ہم ایک بار پھر اپنی یہ بات دہرانا چاہیں گے کہ مسلمان پیٹ پر پتھر باندھ کر اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائیں۔' ہمیں ایسے اسکولوں اور کالجوں کی اشد ضرورت ہے جن میں مذہبی شناخت کے ساتھ ہمارے بچے اور خاص کر بچیاں اعلیٰ دنیاوی تعلیم کسی رکاوٹ اور امتیازکے بغیر حاصل کر سکیں۔'

انہوں نے کہا کہ 'اس وقت مسلمانوں کے لئے سب سے بڑا چیلنج ارتداد کی مہم ہے جس کی وجہ سے مسلم لڑکیوں کے ارتداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے اور اس حوالے سے منظم شکل میں فرقہ پرست عناصر غیر مسلم نوجوانوں کو مسلم بچیوں کو ورغلانے کے لیے نہ صرف ہر طرح کی مدد فراہم کر رہے ہیں بلکہ اس کی حوصلہ افزائی بھی کی جارہی ہے، اس صورتحال پر اگر بروقت قدغن نہ لگائی گئی تو آنے والے دن انتہائی خطرناک ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں: ایس ڈی پی آئی نے اندور ماب لنچنگ پر حکومت کے رویہ کی مذمت کی

جمعیۃ علماء ہند کی ورکنگ کمیٹی اس مسئلے پر غورو خوض کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ دینی تعلیمات سے بے زاری اس کا بنیادی سبب ہے اس لئے جمعیۃ علماء ہند با اثر اور دولت مند لوگوں سے اپیل کرتی ہے وہ اپنے اپنے علاقوں میں لڑکیوں کے لئے علیحدہ علیحدہ اسکول اور کالج کا انتظام کریں، اپنی بہو بیٹیوں کی عزت وآبرو اور ایمان کی حفاظت کے لئے یہ اس وقت کی شدید ضرورت ہے۔'

مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ 'بے حیائی اور فحاشی کسی مذہب کا شیوہ نہیں ہے دنیا کے ہر مذہب میں اسے برا سمجھا گیا ہے اس لئے کہ ان سے ہی معاشرہ میں بے راہ روی پھیلتی ہے اس لئے ہم اپنے غیر مسلم بھائیوں سے بھی یہ گزارش کریں گے کہ وہ اپنی بچیوں کو بے حیائی اور بے راہ روی سے دور رکھنے کے لیے مخلوط تعلیم دلانے سے گریز کریں اور ان کے لئے الگ سے تعلیمی ادارے قائم کریں۔'

انہوں نے مزید کہا کہ 'آج کے حالات میں ہمیں اچھے مدرسوں کی بھی ضرورت ہے اور اچھے اعلیٰ دنیاوی تعلیمی اداروں کی بھی جن میں قوم کے ان غریب مگر ذہین بچوں کو بھی تعلیم کے یکساں مواقع فراہم ہوسکیں۔ جن کے والدین تعلیم کا خرچ اٹھا پانے سے قاصر ہیں۔'

جمعیۃ علماء ہند کے اس اجلاس میں ہجومی تشدد اور ماب لنچنگ پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ 'ایک جمہوری ملک میں عوام کا قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لینا اور حکومت کا اس لا قانونیت پر خاموش تماشائی بنا رہنا یہ ایسا رویہ ہے جو ملک کو انتشار اور خانہ جنگی کی طرف لے جارہا ہے، اگر ملک میں یہ لاقانونیت یوں ہی بڑھتی رہی تو اس کی آگ میں نہ صرف اقلیتیں، دلت اور ملک کے کمزور عوام ہی نہیں جلیں گے بلکہ ملک کی ساری ترقی اور نیک نامی بھی خاک میں مل جائے گی۔مسلم اور غیر مسلم متحد ہو کر اس کے خلاف آواز اٹھائیں۔'

مولانا مدنی نے ماب لنچنگ کے حوالہ سے کہا کہ 'یہ سب کچھ منصوبہ بند طریقہ سے ہورہا ہے اور اس کا مقصد مذہبی شدت پسندی کو ہوا دیکر اقلیت کے خلاف اکثریت کو متحد کرنا ہے انہوں نے کہا کہ 'اس طرح کے واقعات میں اچانک اس وقت شدت آجاتی ہے جب کسی ریاست میں الیکشن ہونے والا ہوتا ہے چند ماہ بعد ملک کی مختلف ریاستوں میں اسمبلی الیکشن ہونے والے ہیں اس لئے جان بوجھ کر ماب لنچنگ کی جارہی ہے اور شرانگیزی میں اضافہ ہو رہا ہے۔'

انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اپنی ساکھ اور ملک کی قدیم تہذیب اور ثقافت کی حفاظت کے لئے اس کے خلاف عملی میدان میں کام کرے اور کہا کہ ماب لنچنگ کے واقعات سپریم کورٹ کی سخت ہدایت کے بعد بھی رکنے کا نام نہیں لے رہے ہیں اس کا صاف مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جو لوگ ایسا کر رہے ہیں انہیں سیاسی تحفظ اور پشت پناہی حا صل ہے؟ اسی لئے ان کے حوصلے بلند ہیں، اس لئے تمام سیاسی پارٹیاں خاص کر وہ پارٹیاں جو اپنے آپ کو سیکولر کہتی ہیں وہ کھل کر سامنے آئیں اور اس کے خلاف قانون سازی کے لئے عملی اقدامات کریں صرف مذمتی بیان کافی نہیں۔'

اجلاس میں اس بات پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا کہ 'ان دنوں آسام میں ایک سازش کی تحت خالص مسلم آبادیوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور جو بستیاں پچاس برس سے زیادہ سے سرکاری زمین پر آباد ہیں ان کو جبراً خالی کرایا جارہا ہے اور ان کے مکانات منہدم کئے جارہے ہیں ایسے لوگوں کو بسنے کے لئے کوئی متبادل جگہ بھی نہیں بتائی جارہی ہے، مجلس عاملہ نے طے کیا ہے کہ مذہب سے اوپر اٹھ کر ان حالات سے نمٹنے کے لئے اگر مفید ہو تو سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے۔'

دوران اجلاس مولانا حلیم اللہ ناظم اعلیٰ جمعیۃ علماء مہاراشٹرنے کوکن مہاراشٹرکے سیلاب میں جمعیۃ علماء کی اب تک کی خدمات کی مکمل تفصیل پیش کی۔ سیلاب متاثرین کی بازآبادکاری کے لئے اپنی یونٹیوں کے تعاون سے فی الحال مرکز کے علاوہ ایک کروڑ دس لاکھ روپے سے جمعیۃ علماء مہاراشٹر کی امداد کرنا طے کیا۔ اجلاس میں ورکنگ کمیٹی نے یہ بھی ہدایت کی ہے اصلاح معاشرہ کی کوششوں کومنظم طریقہ سے پورے ملک میں پھیلادی جائے۔

اجلاس میں دہلی فسادات میں بے قصور مسلم نوجوانوں پر کئے گئے 137 مقدمات کی پیروی اور پیش رفت پر غور کیا گیا، ابھی تک جمعیۃ کے تعاون سے 90 ضمانتیں ہوچکی ہیں اور باقی کیسوں کی ضمانت کی اپیل سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ میں داخل ہے، ان مقدمات کی پیروی جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے ایڈوکیٹ ظہیرالدین بابر چوہان کی سربراہی میں وکلاء کی ایک ٹیم کررہی ہے۔ مجلس عاملہ کی کارروائی صدر محترم مدظلہ کی دعا پر اختتام پزیر ہوئی۔

اجلاس میں صدر محترم کے علاوہ مفتی سید معصوم ثاقب ناظم عمومی جمعیۃ علماء ہند، مولانا عبدالعلیم فاروقی نائب صدر جمعیۃ علماء ہند، مولانا سید اسجد مدنی، مولانا عبدالرشید قاسمی، مولانا عبداللہ ناصر قاسمی، مولانا اشہد رشیدی، مفتی غیاث الدین اور الحاج سلامت اللہ نے شرکت کی۔

اجلاس میں جن مدعوئین خصوصی نے شرکت کی ان میں مولانا محمد مسلم قاسمی، مولانا حلیم اللہ قاسمی بھیونڈی، مولانا محمد خالد قاسمی، مولانا عبدالقیوم قاسمی، مفتی عبدالرزاق مظاہری، مولانا بدر احمد مجیبی، مولانا محمد راشد قاسمی، مولانا شمس الدین قاسمی اور مفتی اشفاق احمد خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details