نیتی آیوگ میں صحت کے رکن اور کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے بنائے گئے 11 اعلی اختیاری گروپوں میں سے پہلے گروپ کے چیئرمین ڈاکٹر وی کے پال نے جمعہ کو یہاں نامہ نگاروں کو بتایا کہ 'مرکزی حکومت نے وقت رہتے لاک ڈاؤن کا فیصلہ اگر نہ کیا ہوتا تو آج بڑی تعداد میں اس وائرس سے لوگوں کی موت ہو گئی ہوتی۔ لاک ڈاؤن کے سبب انفیکشن کے پھیلاؤ اور اموات میں بھی کمی آئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ 'تین اپریل کو ملک میں کورونا وائرس کے نئے معاملوں کی شرح 22.6 فیصد تھی اور 15 مئی کو یہ گھٹ کر 5.5 فیصد رہ گئی تھی۔ اس کے علاوہ 28 مارچ کو شرح اموات 71.4فیصد تھی جو 15 مئی کو گھٹ کر 5.5 فیصد پر آ گئی تھی۔
ڈاکٹر پال نے کہا کہ 'اگر لاک ڈاؤن نہ ہوتا تو آج ملک میں کروڑوں لوگوں میں انفیکشن پھیل گیا ہوتا اور اموات کا اعداد وشمار بھی ناقابل تصور ہوتا، مگر لاک ڈاؤن نے کورونا وائرس انفیکشن کو ایک ہی جگہ پر محدود کر دیا اور اس دوران ہمیں جو وقت ملا اس کا استعمال ملک میں طبی ڈھانچے کو بہتر بنانے، کورونا وائرس سے نمٹنے کی تیاریوں میں کیا گیا۔ ہم اب مستقبل کے لیے تیار ہیں اور اس وقت ملک میں ایک لاکھ 38 ہزار 653 آئیسولیشن بیڈ اور كووڈ کیئر سینٹرز میں ساڑھے چھ لاکھ بیڈ ہیں جن کا استعمال کسی بھی صورت حال سے نمٹنے میں کیا جا سکتا ہے۔
کورونا کے 60 فیصد سے زائد معاملے کے پانچ شہر ممبئی، دہلی، چنئی، احمد آباد اور تھانے میں ہیں اور 70 فیصد سے زائد کیسز 10 شہروں پونے، اندور، کولکتہ، حیدرآباد، اورنگ آباد، ممبئی، دہلی، چنئی، احمد آباد اور تھانے تک محدود ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ 'لاک ڈاؤن کے سبب لوگوں کا ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا کافی حدتک محدود ہوگیا تھا اور اس کی وجہ سے کورونا وائرس کے سنگین کیسز میں لوگوں کی موت کے اعداد و شمار بھی بہت محدود علاقوں تک دیکھنے کو ملے ہیں۔ کورونا کی وجہ سے 80 فیصد سے زائد اموات پانچ ریاستوں مہاراشٹر، گجرات، مدھیہ پردیش، مغربی بنگال اور دہلی میں ہوئی ہیں اور 60 فیصد اموات ممبئی، احمد آباد، پونے، دہلی اور کولکتہ میں درج کی گئی ہیں۔