دہلی، ممبئی:گیان واپی مسجد مقدمہ ایک جانب جہاں وارانسی کی ضلع عدالت میں چل رہا ہے وہیں سپریم کورٹ آف انڈیا میں بھی ایک سے زائد ایسی عرضداشتیں داخل کی گئی ہیں جو پلیس آف ورشپ قانون کو غیر آئینی قرار دینے کی عدالت سے گزارش کررہی ہیں۔ سال 2020 میں سپریم کورٹ آف انڈیا میں پلیس آف ورشپ (عبادت گاہوں کا تحفظ) قانون کو کالعدم قرار دینے کی مانگ کرنے والی دو پٹیشن داخل کی گئی تھیں جس میں ایک پٹیشن کو عدالت نے سماعت کے لیے قبول کرتے ہوئے مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کیا ہے، یہ پٹیشن بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والے اشونی کمار اپادھیائے (ایڈووکیٹ) نامی شخص نے داخل کی تھی جس کا نمبر سول رٹ پٹیشن 1246/2020 ہے۔ Jamiat Ulama Hind filed a writ Petition in the Supreme Court
متذکرہ پٹیشن کی مخالفت کرنے کے لیے جمعیت علماء ہند نے بذریعہ ایڈووکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول مداخلت کار کی عرضداشت سپریم کورٹ آف انڈیا میں داخل کردی ہے جس پر جمعہ یعنی 9/ ستمبر کو سماعت متوقع ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس یو یو للت کی سربراہی والی تین رکنی بنچ جس میں جسٹس ایس رویندر بھٹ، جسٹس پی شری نرسہما شامل ہیں اس اہم مقدمہ کی سماعت کرے گی۔ اسی درمیان صدر جمعیت علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر جمعیت علماء ہند نے سپریم کورٹ میں ایک تازہ پٹیشن داخل کی ہے اور عدالت سے گز ارش کی ہے کہ وہ پلیس آف ورشپ ایکٹ کی حقیقی حفاظت کرے اور اس کے مؤثر نفاذ کے لیے فوری اقدامات کرے تاکہ ایک مخصوص طبقے کی جانب سے کی جانے والی بے لگام قانونی چارہ جوئی پر لگام لک سکے۔
رٹ پٹیشن میں تحریر کیا گیا ہے کہ اس قانون کے موثر نفاذ نہ ہونے کی وجہ سے مسلم عبادت گاہوں بشمول قطب مینار، متھرا کی عیدگاہ کو مسلسل نشانہ بنایا جارہا ہے اور ان عبادگاہوں کو فضول تنازعات کا شکار بنایا جارہا ہے. نیز ملک کی مختلف عدالتوں میں مقدمات قائم کرکے مسلمانوں کو پریشان کیا جارہا ہے جب کہ عبادت گاہوں کے تحفظ کا قانون اس کی قطعی اجازت نہیں دیتا ہے۔ رٹ پٹیشن میں مزید لکھا گیا ہے کہ نہ صرف مقدمات قائم کیے جارہے ہیں بلکہ نچلی عدالتوں نے مختلف مقامات پر اسٹیٹس کو بھی تبدیل کردیا ہے جو پلیس آف ورشپ ایکٹ کی خلاف ورزی ہے۔
اس طرح کے مقدمات قائم کرکے دو فرقوں کے درمیان منافرت پھیلائی جارہی ہے جس کو روکنا ضروری ہے۔ پٹیشن میں مزید درج کیا گیا ہے کہ پلیس آف ورشپ قانون 1991 نافذ کرنے کا دو مقصد تھا، پہلا مقصد یہ تھا کہ کسی بھی مذہبی مقام کی تبدیلی کو روکنا اور دوسرا مقصد یہ تھا 1947 کے وقت عبادت گاہیں جس حال میں تھی اسی حال میں اسے رہنے دینا تھا اور ان دونوں مقاصد کو بابری مسجد رام جنم بھومی ملکیت مقدمہ فیصلہ میں عدالت نے مانا ہے۔ عرضداشت میں مزید تحریر کیا گیا ہے کہ پلیس آف ورشپ قانون آئین ہند کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرتا ہے اس بات کا ذکر بابری مسجد مقدمہ فیصلہ میں کیا گیا ہے۔