اردو

urdu

By

Published : Sep 8, 2022, 2:22 PM IST

ETV Bharat / state

Places Of Worship Act جمعیت علماء ہند نے سپریم کورٹ میں رٹ پٹیشن داخل کی

پلیس آف ورشپ قانون کو چیلنج کرکے ملک کا امن ایک بار پھر خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، جمعیت علماء ہند نے کہا ہے کہ پلیس آف ورشپ قانون کی حفاظت کرنا نہایت ضروری ہے، جمعیۃ علماء ہند نے سپریم کورٹ میں رٹ پٹیشن داخل کی ہے۔ جو پلیس آف ورشپ قانون کو چیلنج کرنے والی عرضداشتوں کی سپریم کورٹ میں مخالفت کرے گی۔ Jamiat Ulema e Hind

جمعیت علماء ہند نے سپریم کورٹ میں رٹ پٹیشن داخل کی
جمعیت علماء ہند نے سپریم کورٹ میں رٹ پٹیشن داخل کی

دہلی، ممبئی:گیان واپی مسجد مقدمہ ایک جانب جہاں وارانسی کی ضلع عدالت میں چل رہا ہے وہیں سپریم کورٹ آف انڈیا میں بھی ایک سے زائد ایسی عرضداشتیں داخل کی گئی ہیں جو پلیس آف ورشپ قانون کو غیر آئینی قرار دینے کی عدالت سے گزارش کررہی ہیں۔ سال 2020 میں سپریم کورٹ آف انڈیا میں پلیس آف ورشپ (عبادت گاہوں کا تحفظ) قانون کو کالعدم قرار دینے کی مانگ کرنے والی دو پٹیشن داخل کی گئی تھیں جس میں ایک پٹیشن کو عدالت نے سماعت کے لیے قبول کرتے ہوئے مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کیا ہے، یہ پٹیشن بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والے اشونی کمار اپادھیائے (ایڈووکیٹ) نامی شخص نے داخل کی تھی جس کا نمبر سول رٹ پٹیشن 1246/2020 ہے۔ Jamiat Ulama Hind filed a writ Petition in the Supreme Court

متذکرہ پٹیشن کی مخالفت کرنے کے لیے جمعیت علماء ہند نے بذریعہ ایڈووکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول مداخلت کار کی عرضداشت سپریم کورٹ آف انڈیا میں داخل کردی ہے جس پر جمعہ یعنی 9/ ستمبر کو سماعت متوقع ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس یو یو للت کی سربراہی والی تین رکنی بنچ جس میں جسٹس ایس رویندر بھٹ، جسٹس پی شری نرسہما شامل ہیں اس اہم مقدمہ کی سماعت کرے گی۔ اسی درمیان صدر جمعیت علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر جمعیت علماء ہند نے سپریم کورٹ میں ایک تازہ پٹیشن داخل کی ہے اور عدالت سے گز ارش کی ہے کہ وہ پلیس آف ورشپ ایکٹ کی حقیقی حفاظت کرے اور اس کے مؤثر نفاذ کے لیے فوری اقدامات کرے تاکہ ایک مخصوص طبقے کی جانب سے کی جانے والی بے لگام قانونی چارہ جوئی پر لگام لک سکے۔

رٹ پٹیشن میں تحریر کیا گیا ہے کہ اس قانون کے موثر نفاذ نہ ہونے کی وجہ سے مسلم عبادت گاہوں بشمول قطب مینار، متھرا کی عیدگاہ کو مسلسل نشانہ بنایا جارہا ہے اور ان عبادگاہوں کو فضول تنازعات کا شکار بنایا جارہا ہے. نیز ملک کی مختلف عدالتوں میں مقدمات قائم کرکے مسلمانوں کو پریشان کیا جارہا ہے جب کہ عبادت گاہوں کے تحفظ کا قانون اس کی قطعی اجازت نہیں دیتا ہے۔ رٹ پٹیشن میں مزید لکھا گیا ہے کہ نہ صرف مقدمات قائم کیے جارہے ہیں بلکہ نچلی عدالتوں نے مختلف مقامات پر اسٹیٹس کو بھی تبدیل کردیا ہے جو پلیس آف ورشپ ایکٹ کی خلاف ورزی ہے۔

اس طرح کے مقدمات قائم کرکے دو فرقوں کے درمیان منافرت پھیلائی جارہی ہے جس کو روکنا ضروری ہے۔ پٹیشن میں مزید درج کیا گیا ہے کہ پلیس آف ورشپ قانون 1991 نافذ کرنے کا دو مقصد تھا، پہلا مقصد یہ تھا کہ کسی بھی مذہبی مقام کی تبدیلی کو روکنا اور دوسرا مقصد یہ تھا 1947 کے وقت عبادت گاہیں جس حال میں تھی اسی حال میں اسے رہنے دینا تھا اور ان دونوں مقاصد کو بابری مسجد رام جنم بھومی ملکیت مقدمہ فیصلہ میں عدالت نے مانا ہے۔ عرضداشت میں مزید تحریر کیا گیا ہے کہ پلیس آف ورشپ قانون آئین ہند کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرتا ہے اس بات کا ذکر بابری مسجد مقدمہ فیصلہ میں کیا گیا ہے۔

(پیرا گراف 99، صفحہ 250) نیز اس قانون کی حفاظت کرنا سیکولر ملک کی ذمہ داری ہے اور سیکولر ملک کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تمام مذاہب کی عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم کرے۔ عرضداشت میں مزید کہا گیا ہے کہ بابری مسجد مقدمہ فیصلہ میں پانچ ججوں کی آئینی بینچ نے پلیس آف ورشپ قانون کا تفصیلی تجزیہ کیا ہے جس کے مطابق یہ قانون آئین ہند کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی حفاظت بھی کرتا ہے نیز اس قانون کی دفعہ 4 عبادت گاہوں کی تبدیلی کو روکتا ہے اور یہ قانون بنا کر حکومت نے آئینی ذمہ داری لی ہے کہ وہ تمام مذاہب کے لوگوں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کرے گی اور یہ قانون بنانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ سیکولر ازم کی بنیادوں کو مضبوط کیا جائے۔

اس ضمن میں جمعیت علماء ہند قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار احمد اعظمی نے کہا کہ پلیس آف ورشپ قانون 18 ستمبر 1991کو پاس کیا گیا تھا جس کے مطابق 15 اگست 1947 کو ملک آزاد ہونے کے وقت تمام مذہبی مقامات کی جو صورتحال تھی اسے تبدیل نہیں کیا جاسکتا ہے۔ صرف بابری مسجد تنازعہ کو اس قانون سے باہر رکھا گیا تھا کیونکہ یہ معاملہ پہلے سے ہی مختلف عدالتوں میں زیر سماعت تھا اس کے باوجود مسلمانوں کی مساجد، عید گاہوں اور دیگر مذہبی مقامات کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بابری مسجد رام جنم بھومی ملکیت تنازعہ مقدمہ میں جمعیت علماء ہند اہم فریق تھی جس میں پلیس آف ورشپ قانون کی دفعہ 4 کو قبول کیا گیا ہے اور اس قانون کی آئینی حیثیت کو بھی سپریم کورٹ نے تسلیم کیا ہے لہٰذا اب اس قانون کو چیلنج کرکے ملک کا امن ایک بار پھر خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ گلزار اعظمی نے کہا کہ ہندو تنظیموں نے تقریباً دو ہزار ایسے مقامات کی فہرست تیار کی ہے جس پر ان کا دعوی ہے کہ پہلے یہ مقامات مندر اور دوسری ہندو عبادت گاہوں کے مقامات تھے لیکن مسلم حملہ آوروں نے انہیں تبدیل کرکے اسے مساجد و خانقاہوں میں تبدیل کردیا ہے۔ لہٰذا وہ اسے واپس لینے کے لیے ملک کی مختلف عدالتوں میں مقدمات داخل کررہے ہیں، جب کہ عبادت گاہوں کے تحفظ کا قانون اس کی اجازت نہیں دیتا۔

واضح رہے کہ اس قبل بھی ہندو پجاریوں کی تنظیم وشو بھدر پجاری پروہت مہا سنگھ و دیگر کی جانب سے سپریم کورٹ آف انڈیا میں ایک پٹیشن داخل کی گئی ہے جس میں انہوں نے عبادت کے مقام کے قانون یعنی کہ پلیس آف ورشپ ایکٹ کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا ہے۔ جمعیت علماء ہند کی جانب سے داخل پٹیشن کو سینیئر ایڈووکیٹ ڈاکٹر راجیو دھون کے مشورہ سے ایڈووکیٹ اعجاز مقبول، ایڈووکیٹ اکرتی چوبے، ایڈووکیٹ قرۃ العین، ایڈووکیٹ شاہد ندیم، ایڈووکیٹ سیف ضیاء نے تیار کیا ہے جس میں گلزار احمد اعظمی سیکریٹری قانونی امداد کمیٹی جمعیت علماء ہند مدعی بنے ہیں۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details