گوہاٹی ہائی کورٹ کے حکم پر مقید افراد کو رہا کیا گیا ہے اور اس میں سپریم کورٹ کے دواہم فیصلوں کا کلیدی رول رہا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ جمعیۃعلماء ہند کی طرف سے داخل ایک عرضی پر سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے 10جنوری 2019کو اپنا فیصلہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ حراستی کیمپوں میں جو لوگ تین سال کی مدت گزارچکے ہیں، انہیں دو بھارتی شہریوں کی ضمانت پر دیگر شرائط کے ساتھ رہا کیا جانا چاہئے۔
اسی طرح گزشتہ 13 اپریل 2020کو ایک اورمقدمہ کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے فیصلہ صادرکیا تھا کہ جو لوگ حراستی کیمپوں میں دوسال کی مدت گزارچکے ہیں، انہیں بھی دوعدد بھارتی شہریوں کی ضمانت پر شرائط کے ساتھ رہا کیا جائے۔
سپریم کورٹ کے انہیں فیصلوں کی روشنی میں گوہاٹی ہائی کورٹ نے ایسے تمام افرادکی رہائی کافرمان جاری کیا ہے، واضح ہوکہ رہاہونے والے وہ لوگ ہیں جنہیں فارن ٹریبونل بھی غیر ملکی قراردے چکا ہے، اگرچہ سپریم کورٹ کی رولنگ بہت صاف ہے مگر حراستی کیمپوں میں جانوروں کی طرح ٹھونس کررکھے گئے بے بس اور نادار لوگوں کے لئے ضابطوں کی تکمیل آسان کام نہیں ہے۔
اس موقع پر جمعیۃ علماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی کی ہدایت پر آسام صوبائی جمعیۃعلماء کے صدرمولانا مشتاق احمد عنفر کی رہنمائی میں جمعیۃعلماء ہند کی ایک ٹیم نے اپنی مہم شروع کی اور حراستی کیمپوں میں دویا تین برس کی مدت پوری کرچکے لوگوں کو قانونی امداد فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
جمعیۃعلماء ہند آسام شہریت معاملہ کو لیکر روز اول سے کامیاب قانونی لڑائی لڑرہی ہے اور یہ قانونی لڑائی اس نے بلا لحاظ مذہب وملت لڑی ہے، اس کی طویل قانونی جدوجہد کے نتیجہ میں این آرسی کے عمل کے دوران آسام کے شہریوں کو بہت سی اہم ریاعتیں حاصل ہوئی جن کی وجہ سے انہیں اپنی شہریت ثابت کرنے میں کم دقت کا سامنا کرنا پڑا۔
جمعیۃعلماء ہند آسام میں انسانیت کی بنیاد پر لوگوں کو اخلاقی اور قانونی امدادفراہم کررہی ہے۔ تازہ معاملہ اس کا بین ثبوت ہے ان میں رہا ہونے والوں میں نصف سے زائد تعداد غیرمسلموں کی ہے یہ وہ مجبوراور نادارلوگ ہیں جو اپنی قانونی لڑائی نہیں لڑسکتے۔
جمعیۃعلماء ہند نے ایسے ہی لوگوں کی مددکرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سیدارشدمدنی نے اپنے ایک بیان میں حراستی کیمپوں سے مجبوراوربے بس افرادکی رہائی کو ایک خوش آئند پیش رفت قراردیتے ہوئے کہا کہ ان فیصلے سے قانون میں ایک بارپھرلوگوں کا اعتمادمضبوط ہوا ہے اور اس فیصلے سے اب ان دوسرے لوگوں کی رہائی کا راستہ بھی آسان ہوجائے گا۔
جو ٹربیونل کے ذریعہ غیر ملکی قراردیئے جانے کے بعد سے حراستی کیمپوں میں رہ رہے ہیں اور اپنی قید کی دویا تین برس کی مدت بھی گزارلی ہے۔