جماعت اسلامی ہند کی جانب سے آج منعقدہ پریس کانفرنس میں نائب امیر جماعت اسلامی ہند پروفیسر سلیم انجینئر، نیشنل سکریٹری مولانا شفیع مدنی، میڈیا نیشنل سکریٹری کے کے سہیل نے شامل رہے اس دوران نایب امیر جماعت سلیم. انجینئر نے خطاب کرتے ہوئے ملک کے کچھ اہم موضوعات پر بات کی۔ جن میں منی پور کا غیر حل شدہ بحران ، نئے فوجداری قوانین، نئے ڈیٹا پروٹیکشن بل، تعلیمی اداروں میں اسلاموفوبیا ، نئی دہلی میں جی 20 سربراہی اجلاس اور ہماچل ماحولیاتی تباہی جیسے موضوعات شامل تھے۔
سلیم انجینئر نے نئے فوجداری قوانین پر اپنی بات رکھتے ہوئے کہا کہ حکومت نے لوک سبھا میں تین نئے بل پیش کئے ہیں جن کا مقصد فوجداری نظامِ عدل کو بہتر بنانا ہے۔ یہ تینوں بل آئی پی سی، سی آر پی سی اور ایویڈینس ایکٹ کی جگہ لیں گے۔ ان بلوں کے بارے میں جماعت اسلامی ہند کا خیال ہے کہ یہ ترامیم نظامِ عدل اور عالمی رجحانات سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ عوامی آراء اور ان کے رجحانات کو معلوم کئے بغیر جلد بازی میں کی گئی اس طرح کی تبدیلیوں سے قانونی فریم ورک میں خلل پڑ سکتا ہے اور اس سے قانون نافذ کرنے والے اداروں، قانونی پیشہ ور افراد اور عوام کے لئے چیلنجز پیدا ہوسکتے ہیں۔ البتہ ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ اس بل میں ہجومی تشدد کے جرم پر سزائے موت کے علاوہ 7 سال قید یاعمر قید متعارف کرائی گئی ہے۔ اس نئے قوانین سے جڑے کچھ مخصوص خدشات ہیں:
(1) بھارتیہ نیائے سنہتا بل: اس بل کا مقصد 1860 کی موجودہ تعزیرات ہند (آئی پی سی) کو تبدیل کرنا ہے۔ یہ بل 175 سیکشنز میں ترمیم، 8 نئے سیکشنز کا اضافہ اور 22 سیکشنز کو منسوخ کرے گا۔ اس کے علاوہ یہ بل بغیر کسی الزام کے حراست کی مدت کو 15 دن سے بڑھا کر 90 دن کردے گا۔ اس میں پولیس کو’ہتھکڑی لگانے کا حق‘ صوابدید کی بنیاد پردیا گیا ہے۔ چیپٹر 7 ریاست کے خلاف جرائم کا احاطہ کرتا ہے۔ یہ ایسی نئی دفعات ہیں جو گرفتاریوں کے دوران انکاؤنٹر اور تشدد کا راستہ کھولتی ہیں۔ان نئے بلوں میں بغاوت، تخریبی سرگرمیوں اور دہشت گردی جیسے جرائم کے تعارف میں مبہم انداز اختیار کیا گیا ہے۔ اس طرح کا تعارف قانونی تشریحات میں ابہام کا باعث بن سکتا ہے اور ممکنہ طور پر اس کا غلط استعمال کئے جانے کے سبب انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوسکتی ہے۔ اس بل میں ’لو جہاد‘ کی ایک شق ہے جس کی تعریف ”شادی سے پہلے اپنی شناخت چھپانا“ کے طور پر کی گئی ہے۔ اسے الگ جرم بنا کر 10 سال کی سزا تجویز کی گئی ہے۔ ’لو جہاد‘ مسلمانوں کے لئے ایک تکلیف دہ لفظ ہے۔ یہ لفظ اسلام کے ایک اہم اصول کی تضحیک کرتا ہے۔ اسے سماج دشمن عناصر کی طرف سے اختراع کیا گیا ہے، لہٰذاہمارے آئین میں اسے ’لیگل پروویژن‘ کے طور پر شامل نہیں کیا جانا چاہئے تھا۔ یہ پروویژن مسلمانوں کو ہراساں کرنے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
(2) بھارتیہ ناگرک سرکشا سنہتا بل: یہ بل 1973 کے موجودہ ’کوڈ آف کریمنل پروسیجر‘ (سی آر پی سی) کو منسوخ کردے گا۔ گرچہ اس میں کوڈ کی بیشتر دفعات کو برقرار رکھا گیا ہے، مگر کچھ بڑی تبدیلیاں شامل کی گئی ہیں جیسے مختلف ایکٹ کے تحت جرائم کے لئے گرفتاری، استغاثہ اور ضمانت کا طریقہ کار۔ قابل ذکر ہے کہ اس طرح بنیادی قانونی اصولوں کو برقرار رکھے بغیر کچھ حصوں کو منسوخ کردینے سے خدشات جنم لیتے ہیں جس کی وجہ سے قانونی عمل میں خلل پڑسکتا ہے۔
(3) بھارتیہ شاکشیہ بل: اس بل کا مقصد 1872 کے’انڈین ایویڈینس ایکٹ‘ کو تبدیل کرنا ہے۔ اس عمل کا مقصد ہے ان قوانین کو جدید اور عصری قانونی صورت حال سے ہم آہنگ کرنا۔ یہ بل الیکٹرانک یا ڈیجیٹل ریکارڈز کو بطور ثبوت تسلیم کرتا ہے اور اسے وہی حیثیت دیتا ہے جو ایک کاغذی ریکارڈ کی ہوتی ہے۔ یہ بل الیکٹرانک ریکارڈز کے مفہوم کو وسیع تر کرکے پیش کرتا ہے جس میں سیمی کنڈکٹر آلات اور اسمارٹ فون و لیپ ٹاپ جیسے گجٹس میں محفوظ کئے گئے لوکیشنل ایویڈینس اور وائس میل جیسی جانکاریاں شامل ہیں۔
اس توسیع سے قانون نافذ کرنے والے ادارے بے گناہ لوگوں کو پھنسانے اور ان پر ایسے جرائم کا الزام لگانے کے لئے استعمال کرسکتے ہیں جن جرائم کو ملزم نے کیا ہی نہیں۔ ماضی میں بارہا دیکھا گیا ہے کہ بے گناہ شہریوں کے خلاف جھوٹے ثبوت پیش کئے گئے۔ بل مشترکہ ٹرائل کی اجازت دیتا ہے جس میں ایک ہی جرم کے لئے ایک سے زیادہ افراد پر مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔ بل میں کہا گیا ہے کہ مشترکہ ٹرائل میں، اگر کسی ایک ملزم نے اعتراف جرم کرلیا اور یہ ثابت بھی ہوجاتا ہے تو اس اعتراف کو دونوں کے خلاف اعترافِ جرم تصور کیا جائے گا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ متعدد افراد پر مقدمے کی سماعت میں جہاں ایک ملزم مفرور ہو یا وارنٹ گرفتاری کا جواب نہ دیا ہو تو اسے مشترکہ مقدمے کی طرح سمجھا جائے گا۔ اس تشریح سے قانون کے غلط استعمال کا شدید خدشہ ہے۔