نئی دہلی:جماعت اسلامی ہند شعبۂ خواتین کی جانب سے'خواتین پر تشدد اور ان کے استحصال کا ثقافتی معمول' کے عنوان سے ایک ویبنار منعقد کیا گیا جس میں مختلف طبقات فکر سے تعلق رکھنے والی ممتاز خواتین اور سماجی کارکنان نے اظہار خیال کیا۔ شرکا نے معاشرے میں خواتین کے ساتھ ہونے والے اہانت آمیز سلوک اور انہیں انسان سمجھنے کے بجائے ایک جنسی شے کی طرح برتاؤ کرنے کے مزاج اور تشدد کے بڑھتے رجحان پر تشویش کا اظہار کیا۔ Stopping the growing trend of violence and exploitation of women is the need of the hour Jamaat e Islami Hind
یہ بھی پڑھیں:
'دی ویمن ایجوکیشن اینڈ ایمپاورمنٹ ٹرسٹ' کی جنرل سیکرٹری شائستہ رفعت نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ "خواتین پر تشدد اور ان سے بدسلوکی کسی ایک ملک کا مسٔلہ نہیں ہے بلکہ پوری دنیا اس صورت حال سے دوچار ہے۔ لیکن ہمارے ملک میں صورت حال سنگین ہے۔ خواتین کو انسان نہ سمجھنے اور ایک شے کی طرح ان کے ساتھ سلوک کرنے کا جو مزاج معاشرے میں پنپ رہا ہے اس کے پس پشت سماج میں مرد کی برتری والی ذہنیت اور خود عورت کا اس صورت حال کو قبول کر لینا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام اور میڈیا سب جگہ عورت کا استعمال ایک سامان کی طرح کر رہے ہیں۔ ہم سب کو ان حالات کو بدلنے کی کوششوں میں تیزی لانی چاہیے"۔ Jamaat e Islami Hind about Women
ویبنار کے افتتاحی خطاب میں رحمت النسا نیشنل سیکرٹری شعبہ خواتین، جماعت اسلامی ہند نے خواتین کے استحصال اور تشدد پر سماج کی خاموشی پر سوال اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ گھر، بازار، کام کی جگہ، کہیں بھی خواتین محفوظ نہیں ہیں۔ ہمیں اس پر خاموشی اختیار نہیں کرنی چاہیے۔ اس کے خلاف خواتین کو آواز اٹھانی چاہیے تاکہ عورت کو عورت کی حیثیت سے جینے کا حق ملے''۔ ویبنار کو خطاب کرتے ہوئے ' آپریشن پیس میکر اور مائی چوائسیز فاؤنڈیشن' کی ڈاکٹر فرزانہ خان نے عورت کے تعلق سے سماج میں پائے جانے والے نظریے کو بدلنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ ایسے قوانین ہونے چاہئیں جس سے مظلوم عورت کو انصاف ملے''۔
ایڈووکیٹ ویشالی ڈولاس نے میڈیا کے ذریعے پھیلائی جانے والی عریانیت کو روکنے پر زور دیا اور کہا کہ بلقیس بانو کے ساتھ ہونے والی نا انصافی کے خلاف ہم کو آواز اٹھانی چاہیے"۔ جنرل سیکرٹری 'نیشنل فیڈریشن آف جی آئی او (گرلس اسلامک آرگنائزیشن )' ثمر علی نے کہا کہ حجاب پہننے کی بات ہو یا عبا، پہننے والے کی پسند پر منحصر ہے۔ پہننے والوں کو شدت پسند کہنا انتہائی غلط ہے۔ عورت سامان نہیں ہے۔ عورت کے استحصال کے خلاف ہمیں جدوجہد کرنی ہے تاکہ سماج میں انہیں صحیح مقام مل سکے"۔ ' ونچت بہوجن آگھاڑی ' کی ممبر جے شری شرکے نے کہا کہ عورت سامان تعیش نہیں ہے۔ عورتوں کو چاہیے کہ اپنے حقوق کی لڑائی خود لڑیں اور مظلوم خواتین کو انصاف دلانے کی کوشش کریں"۔
'ویمن پالی ٹیکنک کالج، گونٹور آندھرا پردیش میں الکٹرانک ڈپارٹمنٹ کی ایچ او ڈی رما سندری نے کہا کہ مقابلہ حسن کا کلچر عام ہونے کے بعد عورت بکاؤ چیز بن گئی ہے۔ انہوں نے مسلم خواتین میں آنے والی تبدیلی خصوصاً سی اے اے اور کورونا وبا کے دوران مسلم خواتین کی خدمات کو سراہا"۔ اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر اوما سنگھ نے کہا کہ عورت پر تشدد عام ہے۔ گھر ہو یا دفتر۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ اپنی بچیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائیں اور انہیں ظلم برداشت کرنے اور چپ رہنے کی تعلیم نہ دیں دیں"۔ اس ویبنار کی نظامت ثنا شیخ نے کی۔ مبشرہ فردوس نے استقبالیہ خطاب پیش کیا جب کہ عارفہ پروین نے مقررین اور تمام شرکاء و ناظرین کا شکریہ ادا کیا۔