شہباز احمد کو قبل ازیں 7 مقدمات میں بری کیا جاچکا ہے جبکہ دیگر 2 مقدمات میں ضمانت حاصل ہوئی ہے۔ ایک مقدمہ میں سپریم کورٹ کی جانب سے ضمانت کی منظوری کے بعد گذشتہ روز جے پور ہائی کورٹ کے جسٹس پنکج بھنڈاری نے بھی ایک اور مقدمہ میں انہیں ضمانت پر رہا کرنے کے احکامات جاری کئے۔
جے پور ہائی کورٹ کے حکم کے بعد شہباز احمد کی 12 سال کے طویل عرصے بعد جیل سے رہائی کا راستہ صاف ہوگیا ہے۔
جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) کی قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے شہباز احمد کی رہائی کی اطلاع دی۔ انہوں نے مقدمہ سے متعلق تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ملزم پر الزام تھا کہ وہ ممنوع شدت پسند تنظیم انڈین مجاہدین کا رکن ہے اور اس نے دیگر 4 ملزمین کے ساتھ سلسلہ وار بم دھماکے کیے تھے۔ ان دھماکوں میں 80 افراد اور دیگر 176 افراد زخمی ہوئے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ گذشتہ برس ایک عدالت نے اپنے فیصلہ میں جہاں 4 ملزمین کو قصور وار ٹھہرایا تھا۔ وہیں شہباز احمد کو باعزت بری کردیا تھا۔ عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد جے پور پولس نے ملزم شہباز کو 12 سال پرانے ایک دوسرے مقدمہ میں گرفتار کر لیا تاکہ اس کی جیل سے رہائی نہ ہوسکے۔ ملزم شہباز احمد کی ضمانت کی عرضی پر بحث کے دوران ایڈوکیٹ نشانت ویاس اور ایڈوکیٹ مجاہد احمد نے ہائی کورٹ کو بتایا کہ جے پور پولس ملزم کو پریشان کرنے کے لیے ایک اور مقدمہ میں گرفتار کیا ہے جبکہ یہ کیس گذشتہ 12 سالوں سے بند تھا۔
گلزار اعظمی نے کہا کہ وکلاء نے عدالت کو بتایا کہ ملزم کو جن الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا تھا اسے ان الزامات سے گذشتہ سال نچلی عدالت نے بری کر دیا تھا لہذا اب ملزم کی گرفتاری غیر قانونی ہے اور اس پر ایک ہی الزام کے تحت دو مقدمات نہیں چلائے جاسکتے۔ دفاعی وکلاء نے عدالت کو مزید بتایا کہ ملزم کو نہ صرف 12 سالوں سے جیل کی صعوبتیں برداشت کرنے پر مجبور کیا گیا بلکہ دوران قید اسے جسمانی طور پر بھی شدید زد و کوب کیا گیا جس کی شکایت ملزم نے سپریم کورٹ سے کی تھی، جس پر سپریم کورٹ نے سبکدوش آئی اے ایس افسر سے تحقیقات کرانے کا حکم دیا ہے اور تحقیقات جاری ہے۔
جے پور ہائی کورٹ کے جسٹس بھنداری نے دفاعی وکلاء کے دلائل سے اتفاق کرتے ہوئے ملزم کو مشروط ضمانت پر رہا کرنے کے احکامات جاری کیے جبکہ وکیل استغاثہ نے ملزم کی ضمانت پر رہائی کی سخت مخالفت کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ ملزم پر بم دھماکے انجام دینے کا سنگین الزام ہے لہذا اسے ضمانت پر رہا نہیں کیا جانا چاہئے۔