اردو

urdu

ETV Bharat / state

پروفیسر اپوروانند کی حمایت میں سامنے آئے ملک اور بیرون ملک کے دانشور

ملک اور بیرون ملک کے ایک ہزار سے زائد جانے مانے دانشوروں، نوکر شاہوں،صحافیوں، مصنفوں، ٹیچروں اور اسٹوڈنٹس نے دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اور مشہور صحافی پروفیسر اپوروانند سے مشرقی دہلی میں فسادات کے معاملے میں پوچھ گچھ کیے جانے اور ان کا موبائل فون ضبط کرنے کے واقعہ کی شدید مذمت کی ہے اور پولیس کے ذریعہ دانشوروں کو بار بار جھوٹے مقدمے میں پھنسائے جانے کی سخت تنقید کی ہے۔

Prof. Apoorvanand
پروفیسر اپوروانند

By

Published : Aug 7, 2020, 5:40 PM IST

پرسار بھارتی کے سابق چیئر مین جواہر چودھری ، گورنمنٹ اسٹاف سلیکشن کمیشن کے سابق چیئرمین این کے رگھوپتی، ممتاز مورخ رام چندر گوہا ، ممتاز ثقافتی کارکن اشوک واجپئی ، نیشنل اسکول آف ڈرامہ کے سابقہ ​​ڈائرکٹر کیرتی جین ، فلم اداکارہ رتنا پاٹھک شاہ اور کیویتا سریواستو کے علاوہ امریکہ کی پرنسٹن ، مینیسوٹا یونیورسٹی ، کارنیل یونیورسٹی ، ایریزونا یونیورسٹی ، میسا چوسٹس یونیورسٹی ، دہلی یونیورسٹی ، کولکاتہ یونیورسٹی ، جواہر لال نہرو یونیورسٹی ، جادو پور یونیورسٹی ، اشوکا یونیورسٹی ، للت نارائن میتھلا یونیورسٹی اور امبیڈکر یونیورسٹی کے اساتذہ نے ایک مشترکہ بیان میں مذمت کی ہے۔ اس بیان پر 1337 سرکردہ شخصیات نے دستخط کیے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی عوامی تنظیموں نے بھی اس بیان پر دستخط کیے ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ دارالحکومت میں ہونے والے فسادات کے سلسلے میں دہلی پولیس کی خصوصی برانچ نے دہلی یونیورسٹی میں ہندی کے پروفیسر پروفیسر اپوروانند سے پانچ گھنٹے تک پوچھ گچھ کی اور ان کا فون بھی ضبط کرلیا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ اس وقت ملک کے حالات بہت خراب ہیں اور 45 سال پہلے لگائی گئی ایمرجنسی سے بھی بدتر ہیں کیونکہ جن لوگوں نے اختلاف رائے اور احتجاجی مظاہرے کا اظہار کیا ہے انہیں تشدد اور دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ . صرف یہی نہیں انہیں جھوٹے معاملوں میں پھنساکر جیل کی سزا بھی سنائی جارہی ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ پروفیسر اپوروانند سے غیر قانونی سرگرمیاں روک تھام ایکٹ کے سیکشن 43 کے تحت پوچھ گچھ کی گئی تھی اور ان پر ہندوستانی تعزیرات اور اسلحہ ایکٹ کی دفعہ 19 کے تحت بھی الزام عائد کیا گیا تھا۔ یہ پولیس کی معمولی تفتیش نہیں ہے۔

بیان کے مطابق بی جے پی حکومت کے لوگ بھیما کوریگاؤں کے معاملے میں ملک کے دانشوروں کو مستقل طور پر ہراساں کررہے ہیں ، بسااوقات ان دانشوروں کو ’اربن نکسلی‘ کہتے ہیں۔ اسی سلسلہ میں پروفیسر اپوروانند کو بھی پولیس نے ہراساں کرنے کی کوشش کی ہے۔ لہذا ہم سب دانشور اس واقعہ پر احتجاج کرتے ہیں اور شہریوں کی آواز بلند کرنے اور جمہوریت کو بچانے کے لیے سبھی سے سامنے آنے کی اپیل کرتے ہیں۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details