سپریم کورٹ کے ذریعہ 2015 میں جاری نالسا ججمینٹ اور سنہ 2019 میں ٹرانسجینڈر پرسن پروٹیکشنز آف رائٹس ایکٹ کے نفاذ کے بعد بھی خواجہ سراؤں کو معاشرہ میں وہ مقام حاصل نہیں ہوا جو ایک عام انسان کو میسر ہے۔ لوگ آج بھی انہیں حقارت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ تاہم ایسے وقت میں ڈاکٹر اقصیٰ شیخ نے ان افراد کے راستہ سے ہٹ کر اپنی منفرد شناخت بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے، جنہوں نے سڑکوں پر کاسۂ گدائی لے کر یا شادی کی تقاریب میں خصوصی پروگرام پیش کرنے کو ہی اپنا پیشہ بنالیا ہے۔
ڈاکٹر اقصیٰ شیخ نے بیس برس کی عمر میں ہی الگ پہچان کے ساتھ نئی زندگی کا آغاز کیا۔ تاہم اقصیٰ کی زندگی مختلف نشیب و فراز سے پُر رہی۔
پہلے تو گھر والوں نے ڈاکٹر اقصیٰ شیخ کی اس جنس تبدیلی کی کوشش پر اعتراض جتایا۔ بعد میں سماج اور مذہب کی دیوار آگے آگئی۔ تاہم بلند حوصلوں سے سرشار ڈاکٹر اقصیٰ نے سماج کی بنائے ہوئے فرسودہ روایات کے سامنے سرنگوں ہونے کے بجائے روایت شکنی کی۔ عزمِ مصمم کے ذریعہ اپنا سفر جاری رکھا۔ اور بالآخر سخت محنت اور لگن کے بعد کامیابی ان کا مقدر بن گئی۔