بھارت کی توانائی کی ضروریات کے لحاظ سے سعودی عرب اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ خلیجی ملک سعودی عرب سے پہلا معاہدہ اپریل 2016 میں ہوا تھا۔ گذشتہ چند برسوں سے دونوں ملکوں کے مابین معاشی تعلقات کافی بہتر ہوئے ہیں۔
ایک ایسے ملک جس نے اپنی توانائی کی حفاظت کو مستحکم کرنے کے لئے اپنی خام ضروریات کا 80 فیصد تک درآمدات پر انحصار کیا ہے۔ بھارت اچھی قیمتوں پر تیل کی درآمد کے قابل اعتماد وسائل کی تلاش میں ہے۔ سعودی عرب بھارت کے ان منصوبوں کی تکمیل میں فٹ بیٹھتا ہے۔ امریکہ تیل میں بہت حد تک خود کفیل ہوچکا ہے، رہا بھارت اور چین تو یہ دونوں ممالک خام تیل کی درآمد کرنے والے ممالک میں سب سے آگے ہیں۔
مالی برس 19-2018 کے درمیان سعودی عرب نے بھارت کو 40.33 ملین ٹن خام تیل فروخت کیا۔ سعودی عرب بھارت کے لئے خام تیل کی درآمد کا عراق کے بعد دوسرا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ سعودی عرب سے تقریبا 18 فیصد خام تیل درآمد کیا جاتا ہے۔ امریکہ اور چین کے بعد توانائی کا تیسرا سب سے بڑا صارف بھارت ہے۔ ہر ماہ سعودی عرب سے تقریبا 200،000 ٹن ایل پی جی خریدتا ہے۔ یا یوں کہیں کہ کُل ضرورت کا 32 فیصد خریدتا ہے۔
وزیر اعظم مودی کے دو روزہ دورے کے دوران دونوں ممالک کے مابین معاہدوں پر دستخط ہونے سے بھارت اور سعودی عرب کے توانائی کے تعلقات کو پوری طرح سے ایک نئی سطح پر پہنچ چکے ہیں۔
بھارتی اسٹریٹجک پیٹرولیم ریزرو لیمیٹڈ اور سعودی ارامکو کے مابین ابتدائی معاہدے کے نتیجے میں کرناٹک کے پڈور میں آئندہ دوسرے ایندھن کے ذخیرے میں سعودی عرب کا بڑا کردار ہوگا۔
گزشتہ برس، نئی دہلی نے اڑیسہ اور پڈور میں اسٹریٹجک پیٹرولیم ریزرو (ایس پی آر) کو منظوری دی تھی جس میں تین مقامات پر خام کے پلانٹ ریزرو میں سہولیات دی گئی۔ ان میں وشاکھاپٹنم (1.33 ایم ایم ٹی) ، منگلورو (1.5 ایم ایم ٹی) اور پڈور (2.5 ایم ایم ٹی) شامل ہے۔
دوسرے معاہدے میں انڈین آئل کارپوریشن لمیٹڈ کی مغربی ایشیاء یونٹ اور سعودی عرب کی الجیری کمپنی نے کنگڈم میں فیول اسٹیشنوں کے قیام سمیت ڈاؤن سٹریم شعبے میں تعاون کے لئے دستخط کیے تھے۔
تیل کی فراہمی، مارکیٹنگ، پیٹرو کیمیکلز اور چکنا کرنے والے سامان کی تطہیر سے لیکر بھارت میں تیل اور گیس منصوبوں کی ویلیو چین میں سرمایہ کاری سے دونوں ممالک کے مابین توانائی کے تعاون میں مزید اضافہ ہوگا۔