جامعہ ملیہ اسلامیہ میں دہلی پولیس کی مبینہ زیادتی اور اس تشدد میں قانون کے طالب علم منہاج الدین کی ایک آنکھ ضائع ہوگئی تھی۔ منہاج نے دیگر متاثرین کی طرح انصاف کی امید سے انسانی حقوق کمیشن میں اپنی شکایت درج کرائی تھی لیکن انسانی حقوق کمیشن پر متاثرین کی فریاد کا کوئی اثر نہیں ہوا۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالب علم منہاج الدین سے خصوصی بات چیت گزشتہ روز جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پولیس کی زیادتی پر حقوق انسانی کمیشن کی ایک رپورٹ سامنے آئی جس میں متاثرین کی شکایتوں کو پس پشت ڈال کر تشدد کے لیے طلباء کو ہی مورد الزام ٹھہرا دیا گیا۔
قومی انسانی حقوق کمیشن، جو انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرتا ہے کی رپورٹ نے متاثرین کو مایوس کیا۔
ایسا کہنا ہے کہ منہاج الدین کا جس نے پولیس کے تشدد کی وجہ سے اپنی ایک آنکھ کھو دی ہے، کے مطابق کمیشن کی رپورٹ بہت چونکا دینے والی اور ناقابل فہم ہے۔
اس رپورٹ میں طلبا اور متاثرین کی شکایتوں کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا اور ایسا لگتا ہے جیسے یہ رپورٹ حکومت کے اشارے پر لکھی گئی ہو۔
واضح رہے کہ قومی انسانی حقوق کمیشن نے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پولیس بربریت کی تحقیقات کی ہے۔ طلبہ اور زخمی متاثرین نے جامعہ میں پولیس کے ذریعہ طلباء پر حملہ کرنے کی روداد سنائی۔ جس کے درجنوں ویڈیو شواہد بھی پیش کئے گئے نیز کمیشن نے متاثرین کے بیانات بھی درج کیے۔
تاہم اب جب کہ کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ سامنے آئی ہے تو اس میں جامعہ کے طلباء کو ہی تشدد کے لیے مورد الزام ٹھہرایا گیا۔
اس رپورٹ میں پولیس کا دامن صاف کردیا گیا ہے۔ کمیشن نے جامعہ کے ان طلباء کو ذمہ دار قرار دیا ہے جو شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرے کر رہے تھے جبکہ یہی پیٹرن دہلی فسادات کی تحقیقات میں بھی اختیار کیا گیا ہے۔ جہاں فساد متاثرین کا علاج و معالجہ کرنے والے ڈاکٹر کو ہی ملزم بنایا گیا ہے۔