دوسری جانب، مظاہرین کو شاہین باغ سے ہٹانے کے معاملے میں بھی دو دیگر عرضیوں پر دوسری بینچ نے مرکزی حکومت، دہلی حکومت اور دہلی پولیس کو نوٹس جاری کیا ہے اور ایک ہفتے میں جواب طلب کیا ہے۔
چیف جسٹس شرد اروند بوبڈے، جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس سوریہ کانت کی بینچ نے قومی بہادری ایوارڈ سے نوازی گئی لڑکی جین سداورتے کے خط کا از خود نوٹس لیتے ہوئے اس معاملے کی سماعت کی اور احتجاجی مظاہرے میں چار ماہ کی بچی کی جان جانے پر تلخ تبصرہ کیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا چار ماہ کی بچی مظاہرے میں حصہ لینے گئی تھی۔ مرکز کی جانب سے پیش سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ 'یہ بے حد بدقسمتی کی بات ہے کہ چار مہینے کی بچی کی موت ہوئی ہے۔'
سماعت کے دوران ہی شاہین باغ کی تین خواتین نے بھی اپنا موقف رکھنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے بچوں کو اسکول میں پاکستانی کہا جاتا ہے۔ اس پر، جسٹس بوبڈے نے کہا کہ 'ہم اس وقت این آر سی، این پی آر اور سی اے اے کے سلسلے میں یا کسی بچے کو پاکستانی کہا گیا، اس موضوع پر سماعت نہیں کررہے ہیں۔'
خواتین کی جانب سے غیر ضروری بحث کئے جانے پر جسٹس بوبڈے نے کہا کہ 'ہم ممتا کا احترام کرتے ہیں۔ ہم کسی کی آواز نہیں دبا رہے ہیں لیکن سپریم کورٹ میں بے وجہ کی بحث نہیں کریں گے۔'
انہوں نے کہا کہ 'سپریم کورٹ کے سامنے یہ موضوع نہیں ہے کہ کسی بچے کو اسکول میں پاکستانی کہا گیا یا کچھ اور، یہ نوزائیدہ بچی کی موت کا بے حد حساس معاملہ ہے اور وہ صرف اسی مسئلے پر توجہ مرکوز رکھیں گے۔'
اس کے بعد عدالت نے مرکز اور دہلی حکومت کو نوٹس جاری کر کے چار ہفتے کے اندر جواب دینے کو کہا ہے۔
اس سے پہلے ایک دیگر بینچ نے شاہین باغ میں جاری احتجاجی مظاہرے کو ختم کرنے کے سلسلے میں فوری طور پر کوئی ہدایت جاری کرنے سے انکار کرتے ہوئے مرکز اور دہلی حکومت کو پیر کو نوٹس جاری کیا۔
عرضی گزاروں کے وکیل امت ساہنی اور بی جے پی رہنما نند کشور گرگ کے وکیلوں نے جسٹس سنجے کشن کول اور جسٹس کے ایم جوزف کی بینچ کو احتجاجی مظاہروں سے عوام کو ہونے والی پریشانیوں سے مطلع کرایا۔
عرضی گزاروں کے وکیل نے عدالت سے مظاہرین کو وہاں سے ہٹانے کے لیے کوئی حکم یا ہدایت دینے کی اپیل کی، جس پر بینچ نے کہا کہ وہ فی الحال کوئی حکم جاری نہیں کررہی ہے اور ایک ہفتے انتظار کرلیں۔
عدالت نے کہا کہ وہ پہلے مدعا علیہان کا موقف جاننا چاہتے ہیں اس لیے انہیں نوٹس جاری کیا جاتا ہے۔ اس دوران مظاہرین کی جانب سے ایک وکیل نے مظاہرہ جاری رکھنے کے حق کا ذکر کیا جس پر جسٹس کول نے کہا کہ 'عام مقامات پر اس قسم کے دھرنے مظاہرے کرنا مناسب نہیں ہے۔'
انہوں نے کہا کہ کسی کو بھی دھرنا، مظاہرے کرنے کے اس کے حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا پھر بھی اس بات کا خیال رکھا جانا چاہئے کہ دھرنا، مظاہرے سے عام لوگوں کو کسی طرح کی کوئی پریشانی نہ ہو۔ دھرنا مظاہرہ ایک طے جگہ پر ہی کیا جانا چاہئے۔
عدالت نے معاملے کی اگلی سماعت کے لیے 17 فروری کی تاریخ مقرر کی ہے اور اس دوران مرکزی حکومت، دہلی حکومت اور دہلی پولیس کو نوٹس جاری کرکے انہیں اس دن تک جواب دینے کی ہدایت دی ہے۔
واضح رہے کہ شاہین باغ میں پچھلے تقریباً دو مہینے سے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرہ جاری ہے جس کے سلسلے میں نوئیڈا کالندی کنج کا راستہ بند پڑا ہے اور مسافروں کو ہر روز بھاری دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔