راہل گاندھی نے 'پیگاسس' ہیش ٹیگ استعمال کرتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ 'ہمیں معلوم ہے کہ وہ آپ کے فون پر کیا پڑھ رہے ہیں!'
کانگریس کے سابق صدر نے ٹویٹر پر 'پیگاسس' اسپائی ویئر معاملے پر لکھا کہ "ہمیں معلوم ہے کہ وہ کیا پڑھ رہے ہیں۔ وہ آپ کے فون پر سب کچھ پڑھ رہے ہیں!"
راہل گاندھی نے اپنے ٹویٹ میں 16 جون کو کیے گئے ایک ٹویٹ کو بھی ٹیگ کیا جس میں لکھا تھا 'میں حیرت زدہ ہوں کہ آپ لوگ ان دنوں کیا پڑھ رہے ہیں'۔
راہل گاندھی کے ٹویٹ کے بعد، کانگریس کے جنرل سکریٹری رندیپ سنگھ سرجے والا نے حکومت کو 'ٹیپنگ جیوی' (Tapping Jeevi) قرار دیتے ہوئے آر ایس ایس کی قیادت کو 'جاسوس سرکار' (Detective Sarkar) قرار دیتے ہوئے مذاق اڑایا۔
وہیں، کانگریس کے سنئر رہنما دگ وجے سنگھ نے اس معاملے پر ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’پیگاسس جاسوسی کیس‘ کا جن اب بوتل سے باہر آگیا ہے۔
سنگھ نے کہا کہ ’پیگاسز اسپائر ویئر‘ سےمتعلقان کے توجہ دلانے پر مرکزی حکومت نے جاسوسی و جھوٹے شواہد پلانٹ کرنے کی سازش کرنے کے الزام کو خارج کر دیا تھا۔
دگ وجے سنگھ نے سلسلے وار ٹوئٹس کرتے ہوئے لکھا کہ اگر وہ صحیح تھے تو اب برائے مہربانی یہ بتائیں کہ یہ کون کررہا ہے۔ کیا وزارت داخلہ سے منظوری لی گئی ہے۔
الزام تو یہاں تک ہے کہ حکومت نے اپنے ہی وزیروں و سپریم کورٹ کے ججوں کی جاسوسی کرنے کے لیے پیگاسز کا استعمال کیا۔ کیا سپریم کورٹ اس موضوع کا نوٹس میں لے گا۔
اس ضمن میں پرینکا گاندھی نے ایک ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پیگاسس جاسوسی معاملہ گھنونا عمل ہے۔
اگر یہ سچ ہے تو ایسا لگتا ہے کہ مودی حکومت نے بنیادی حق کے طور پر بھارتیہ شہریوں کو دی جانے والی رازداری کی آزادی کو چھین لیا گیا ہے جو Right to Privacy پر حملہ ہے اور یہ آئینی طور پر غلط ہے۔
وہیں، بی جے پی کے سینئر رہنما سبرمنیم سوامی نے بھی اس معاملے کو اٹھایا اور انہوں نے ٹویٹر پر اس اسپائی ویئو کو بنانے والی اسرائیلی کمپنیاین ایس او سے اسپائی ویئر سے سوال پوچھا جس پر کمپنی نے جواب دیا کہ پیگاسس کو صرف سرکاری ایجنسیوں کو فروخت کیا جاتا ہے۔ اس سافٹ ویئر کا مقصد صرف جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردوں کے خلاف استعمال کرنا ہے اور یہ صرف فوجی، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کو ہی دستیاب ہے۔ اس جواب پر سوامی نے مزید سوالات کیے کہ کمپنی بتائے اس پروجکٹ کو کس نے خریدا تھا، کس لیے اور کیسے ؟
وہیں، مرکزی وزیر برائے انفارمیشن ٹکنالوجی نے پارلیمنٹ میں پیگاسز معاملے پر بیان دیتے ہوئے کہا کہ ''ہم ان لوگوں کو قصوروار قرار نہیں دے سکتے جنہوں نے خبر کو تفصیل سے نہیں پڑھا ہے۔ میں ایوان کے سبھی ارکان سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ معاملوں کو حقائق اور دلائل کی بنیاد پر پرکھیں۔ پیکاسس سے متعلق رپورٹ یہ ہے کہ ایک کنسورشیم (انجمن) کو 50000ہزار موبائل نمبروں سے متعلق لیک ہوئے ڈیٹا بیس تک رسائی مل گئی ہے''
مزید پڑھیں:
Pegasus Spyware: اسرائیلی اسپائی ویئر سے صحافیوں اور سیاستدانوں کی جاسوسی کا انکشاف
واضح رہے کہ اتوار کے روز، ایک عالمی میڈیا کی تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ 40 سے زائد صحافی، حزب اختلاف کی تین بڑے رہنماؤں، ایک جج، دو مرکزی وزرا، سکیورٹی تنظیموں کے عہدیدار اور کاروباری اور بڑی تعداد میں سماجی کارکنان شامل ہیں۔ ایسے لوگوں کی تعداد تقریباً 300 بتائی جا رہی ہے، جنہیں اسرائیلی اسپائی ویئر کے ذریعہ نشانہ بنایا گیا۔