نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ دہلی تشدد کے معاملے میں عمر خالد اور شرجیل امام Umar Khalid and Sharjeel Imam کی ضمانت کی درخواستوں پر آج سماعت کرے گی۔ جسٹس سدھارتھ مردول کی سربراہی والی بنچ اس معاملے کی سماعت کرے گی۔ 4 اگست کو سماعت کے دوران دہلی پولیس نے کہا تھا کہ شاہین باغ احتجاج میں نانی اور دادی کا رول نہیں تھا، جیسا کہ اسکی تشہیر کی گئی تھی۔ دہلی پولیس کی طرف سے پیش ہونے والے اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر امت پرساد نے کہا تھا کہ شاہین باغ ایجی ٹیشن کو شرجیل امام کے ذریعہ منصوبہ بند طریقے سے متحرک وسائل سے منظم کیا گیا تھا۔ پرساد نے کہا تھا کہ احتجاجی مقام پر حامیوں کی تعداد بہت کم تھی۔ فنکاروں اور موسیقاروں کو باہر سے لایا گیا تاکہ مقامی لوگ احتجاج میں حصہ لیتے رہیں۔ Hearing on bail plea of Umar Khalid and Sharjeel Imam today
امت پرساد نے کہا تھا کہ پہلا تشدد 13 دسمبر 2019 کو ہوا تھا، یہ تشدد شرجیل امام کی جانب سے پمفلٹ تقسیم کرنے کی وجہ سے ہوا۔ امت پرساد نے شرجیل امام کی 13 دسمبر کو جامعہ میں دی گئی تقریر کا حوالہ دیا۔ انہوں نے کہاکہ شرجیل امام کی تقریر میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ ان کا مقصد ٹریفک جام کرنا تھا اور اس جام کے ذریعے دہلی میں اشیائے ضروریہ کی سپلائی میں خلل ڈالنا تھا۔ شرجیل کی تقریر کے فوراً بعد ہنگامہ برپا ہو گیا۔ اس کے بعد مظاہرے کا مقام شاہین باغ بنا دیا گیا۔ بتادیں کہ امت پرساد یکم اگست سے دلائل پیش کر رہے ہیں۔
28 جولائی کو عمر خالد کی طرف سے پیش ہونے والے ایڈوکیٹ تردیپ پیس نے اس کیس میں دلائل مکمل کیے۔ عمر خالد کی جانب سے کہا گیا کہ ان کے خلاف دائر چارج شیٹ میں سازش ظاہر کرنے کے لیے جن واقعات کا ذکر کیا گیا ہے ان کا ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ عمر خالد کی طرف سے پیش ہونے والے ایڈوکیٹ تردیپ پیس نے کہا تھا کہ چارج شیٹ میں پانچ واٹس ایپ گروپس پر بات کی گئی ہے، جس میں عمر خالد صرف دو گروپوں کے ممبر تھے اور اسی گروپ میں میسج بھی کرتا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ کسی بھی عینی شاہد نے یہ نہیں کہا کہ عمر خالد شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہروں کے دوران تشدد میں شریک تھا۔ پولیس نے عمر خالد کی گرفتاری سے قبل مقدمہ درج کر لیا۔