اردو

urdu

ETV Bharat / state

نظام الدین مرکز معاملے میں پولیس کی پانچ بڑی کوتاہی

دارالحکومت دہلی کے نظام الدین میں واقع تبلیغی مرکز میں اچانک نافذ ہوئے لاک ڈاؤن کے درمیان پھنسے افراد کو لے کر جو پروپیگنڈا پھیلایا گیا دراصل اس میں پولیس کی کوتاہی نظر آتی ہے۔

five major carelessness of police in nizamuddin center case
نظام الدین مرکز معاملے میں پولیس کی پانچ بڑی کوتاہی

By

Published : Apr 3, 2020, 5:44 PM IST

معلومات کے مطابق نظام الدین تھانہ کے ٹھیک پیچھے بنے تبلیغی مرکز میں پورے سال بھر پانچ ہزار سے زیادہ افراد رہتے ہیں۔ پولیس کو بھی اس کے بارے میں معلومات ہوتی ہیں۔

دارالحکومت دہلی میں ہولی کے وقت سے ہی کورونا کو لے کر کافی احتیاط برتا جا رہا تھا لیکن اس مرکز کو لے کر پولیس کی طرف سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ اس جگہ کو خالی کرانے اور وہاں کے عہدیداروں سے بات نہیں کی گئی اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ پولیس کی طرف سے ہی لاپروائی ہوئی ہے۔

جانیں پولیس کی پانچ سب سے بڑی کوتاہی کیا تھی:

1. نظام الدین میں واقع اس مرکز میں دہلی پولیس کی طرف سے ایک سب انسپکٹر تعینات رہتا ہے۔ وہ یہاں آنے والے لوگوں پر نگاہ رکھنے اور ان کی مدد کے لیے سال بھر موجود رہتا ہے۔ لیکن حکومت کی ہدایات کی خلاف ورزی کے باوجود اس نے اعلی حکام کو اس بارے میں کوئی معلومات نہیں دی۔

2. دہلی حکومت کی طرف سے 16 مارچ کو حکم آیا تھا کہ کسی بھی جگہ پر 50 سے زیادہ افراد جمع نہیں ہوں گے۔ لیکن اس وقت مرکز میں دو ہزار سے زیادہ افراد موجود تھے۔ یہ جاننے کے بعد بھی پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی۔

3. اس معاملے کی جانکاری ملنے پر ایس ایچ او کی طرف سے صرف مرکز کے انتظامیہ کو نوٹس دیا گیا اور اپنے دفاع کے لیے ایک ویڈیو بنائی گئی تھی۔ کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی گئی۔

4. سینئر افسران کا خیال ہے کہ پولیس کو مرکز میں ہو رہے خلاف ورزی کی اطلاع ملتے ہی ایف آئی آر درج کرنی چاہئے تھی۔ پولیس نے تب تک مقدمہ درج نہیں کیا جب تک دہلی حکومت اور لیفٹیننٹ گورنر کی طرف سے اس کے لیے حکم نہیں آیا۔

5. یہاں سے لوگوں کو نکالنے میں حکومت کے ساتھ جو تال میل 29 مارچ سے دکھایا گیا وہ دہلی پولیس کو 16 مارچ کے بعد ہی کرنی چاہئے تھی۔ اگر اس وقت اس تال میل کو دکھایا جاتا تو کورونا مریضوں میں اضافہ نہ ہوتا اور وہ افراد بھی مل جاتے جو دارالحکومت دہلی کے مختلف مساجد میں جلے گئے تھے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details