اردو

urdu

ETV Bharat / state

شاہین باغ: مظاہرین میں داخلی اختلافات لیکن احتجاج جاری رکھنے پر اتفاق

شاہین باغ مظاہرہ میں دادیوں کے نام سے مشہور خواتین کے ایک وفد نے آج دہلی کے لیفٹننٹ گورنر انل بیجل سے ملاقات کی۔ اس ملاقات نے ایک طرف جہاں سی اے اے کے موضوع پر حکومت سے گفت و شنید کے آثار پیدا کیے تو وہیں شاہین باغ میں بیٹھے مظاہرین کے درمیان داخلی اختلافات بھی دیکھنے کو ملا۔

شاہین باغ میں مظاہرین میں داخلی اختلافات لیکن احتجاج پر متفق
شاہین باغ میں مظاہرین میں داخلی اختلافات لیکن احتجاج پر متفق

By

Published : Jan 21, 2020, 11:44 PM IST

Updated : Feb 17, 2020, 10:41 PM IST

نئی دہلی کے اوکھلا علاقے میں واقع شاہین باغ کے تاریخی مظاہرہ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے جب تنازعہ تو تو میں میں سے آگے بڑھ کر دھکا مکی تک پہنچ گیا۔ سیاسی اور غیر سیاسی شخصیات کی آمد پر داخلی اختلاف رائے اس مظاہرہ کا حصہ رہا ہے مگر تنازعہ نے کبھی طول نہیں پکڑا، حالانکہ سب کے لیے یہ مظاہرہ بہت اہم ہے اور اس مظاہرہ کی جگہ کی قیادت خواتین بہت ہی خوبصورتی اور سلیقہ سے کر رہی ہیں، مگر جیسے جیسے دن گزرتے جارہے ہیں ویسے ویسے مظاہرہ میں سب کچھ ترتیب میں رکھ پانا بہت مشکل ہو رہا ہے۔

شاہین باغ میں مظاہرین میں داخلی اختلافات لیکن احتجاج پر متفق

آج دوپہر 3 بج کر 45 منٹ پر دہلی پولیس کی 2 اسکاٹ گاڑیوں کے ساتھ انوا گاڑی میں یہ وفد سول لائنس پر واقع راج نواس پہنچا۔ اس وفد میں چار دادیاں اور چار مرد شامل تھے۔ راج نواس میں وفد نے لیفٹننٹ گورنر انل بیجل سے ملاقات کی۔ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرہ کی وجوہات بیان کرنے کے ساتھ ساتھ مظاہرہ جاری رکھنے کا عزم بھی ظاہر کیا گیا۔ اس ملاقات کے دوران وفد نے لیفٹننٹ گورنر انل بیجل کو ایک میمورنڈم بھی دیا، جس میں شہریت ترمیمی قانون کے مذہبی تعصب پر مبنی ہونے اور شاہین باغ مظاہرہ کے آئینی ہونے کا حوالہ شامل ہے۔ تقریبا 50 منٹ کی میٹنگ کے بعد وفد باہر آتا ہے، راج نواس کی پچھلے دروازہ پر میڈیا کی بھاری بھیڑ ہوتی ہے اور دادیوں سے سوال کرتی ہے، دادی کہتی ہیں کہ ہم نے کہہ دیا ہے کہ 'سی اے اے، این آر سی اور این پی آر واپس لو'۔ اس کے فورا بعد تاثیر احمد جو کہ وفد کا حصہ تھے، میڈیا کو بریف کرنا شروع کرتے ہیں۔

شاہین باغ میں مظاہرین میں داخلی اختلافات لیکن احتجاج پر متفق

تاثیر احمد کہتے ہیں کہ مظاہرہ جاری رہے گا، تاہم اسکولی بچوں کی آمد و رفت متاثر ہونے کے سوالات پر حل تلاش کرنے کی بات بھی کہتے ہیں۔ ان کے مطابق صرف اسکولی بچوں کے لیے ایک خاص وقت میں راستے کھولے جا سکتے ہیں۔

دوسری طرف عین اسی وقت میں شاہین باغ کے مظاہرہ کے مقام پر مشہور وکیل محمود پراچہ پریس کانفرنس کرتے ہیں اور وفد کی ملاقات اور اس کی نوعیت پر شبہ ظاہر کرتے ہوئے اسے بی جے پی کے ذریعہ بہکایا گیا وفد قرار دیتے ہیں، جس سے مظاہرین میں بے چینی پھیل جاتی ہے، اس کے بعد شاہین باغ میں ہی ایک دوسری پریس کانفرنس کا اعلان کیا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ وفد میں شامل دادیاں ملاقات کے تعلق سے بات کریں گی۔

دادیوں کا وفد 5 بج کر 30 منٹ کے آس پاس راج نواس سے باہر نکلتا ہے اور وہ مظاہرہ کی جگہ پر پہنچتا ہے، ٹریفک کی وجہ سے وفد بہت تاخیر سے پہنچتا ہے، 7 بج کر 30 منٹ پر ایک پریس کانفرنس ہوتی ہے جس میں دادیاں بتاتی ہیں کہ انہیں کسی نے بہلایا پھسلایا یا بہکایا نہیں ہے بلکہ وہ اپنے من سے ایل جی سے ملاقات کرنے گئی تھیں۔

دادیوں نے یہ بھی کہا کہ یہ مظاہرہ ویسا ہی چلتا رہے گا، جس کے بارے میں ایل جی کو بھی بتایا گیا، ایک دادی نے بتایا کہ انہوں نے انل بیجل کے سامنے کہا کہ مودی ان کا بیٹا ہے، کیا وہ اپنی ماؤں کو سڑکوں پر بیٹھے دیکھنا چاہتا ہے۔

شاہین باغ میں مظاہرین میں داخلی اختلافات لیکن احتجاج پر متفق

دادیوں نے یہ بھی بتایا کہ انل بیجل نے ان سے سڑکوں پر ہٹنے کی بات نہیں کہی، بلکہ ہمارے مطالبات سنے، عزت سے بٹھایا، عصر کی نماز پڑھنے کے لیے جگہ دی۔ دادیوں نے ایل جی کے اس بیان کو بھی خارج کیا، جس میں ایل جی نے یہ دعوی کیا تھا کہ انہوں نے وفد سے سڑک خالی کرنے کی اپیل کی ہے۔

اسی پریس کانفرنس میں تاثیر احمد نے بتایا کہ سڑکیں نہیں کھولی جارہی ہیں بلکہ ایک عارضی حل کے طور پر اسکولی بسوں اور ایمرجنسی کے لیے متعینہ وقت تک راستے کھولنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔

تاثیر احمد پریس کانفرنس سے باہر آکر کچھ میڈیا اہلکاروں کے سامنے مزید وضاحت کرتے ہوئے وکیل محمود پراچہ پر مظاہرین کو گمراہ کرنے کا الزام لگاتے ہیں، ان کے آس پاس موجود بھیڑ ناراضگی ظاہر کرتی ہے۔

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کسی کا نام نہ لیا جائے، اچانک بھیڑ سے ایک برہم آواز آتی ہے کہ آپ کو کس نے وفد میں بھیجا۔ کس حق سے آپ نے ملاقات کی؟ اس دوران ای ٹی وی بھارت کے نمائندہ کو ویڈیو ریکارڈنگ کرنے سے روک دیا گیا۔ بھیڑ کا حجم بڑھ جاتا ہے اور تاثیر احمد کو دھکا دیا جاتا ہے اور مظاہرہ سے نکل جانے کو کہا جاتا ہے۔

تھوڑے لمحے کے لیے ہوئے اس جھگڑے سے کئی سوالات کھڑے ہوتے ہیں۔ آج جس وفد نے ایل جی سے ملاقات کی، کیا وہ مظاہرین کی نمائندگی نہیں کر رہا تھا۔ اگر نمائندگی کر رہا تھا تو وکیل محمود پراچہ نے اس پر گمراہ ہونے کا الزام کیوں لگایا۔ خواتین کی قیادت میں مسلسل 37 دنوں سے چل رہے اس مظاہرہ میں اختلافات پیدا ہو رہے ہیں یا اختلافات پیدا کیے جارہے ہیں؟

لیکن شاہین باغ میں دھرنے پر موجود ہزاروں مرد و خواتین اس تحریک کو جاری رکھنے پر بضد ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ یہ تحریک آگے بھی جاری رہے گی۔ یہ وقتی اختلافات ہیں جو یقیناً دم توڑ دیں گے۔

Last Updated : Feb 17, 2020, 10:41 PM IST

ABOUT THE AUTHOR

...view details