اردو

urdu

ETV Bharat / state

'نئی زرعی اصلاحات سے کسانوں کو طاقتور گروہوں سے آزادی' - مہم چلائی جاتی رہی ہے وہ بھی پہلے کی طرح ہی چلتی رہیں گی

وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ یہ تبدیلی کسان اور زرعی منڈیوں کے خلاف نہیں ہے بلکہ ملک کے ان طاقتور گروہوں سے کسانوں کو چھٹکارہ دلانے کے لیے ہے جو اب تک ان کی مجبوری کا فائدہ اٹھا رہے تھے۔

farm bills need of 21st century, msp will continue like before says pm narendra modi
وزیر اعظم نریندر مودی

By

Published : Sep 21, 2020, 10:05 PM IST

وزیر اعظم نریندر مودی نے پارلیمنٹ سے کل ملک کے کسانوں کو نئے حقوق دینے والے پاس قوانین کو 21 ویں صدی کے بھارت کی ضرورت بتایا اور کہا کہ یہ تبدیلی کسان اور زرعی منڈیوں کے خلاف نہیں ہے بلکہ ملک کے ان طاقتور گروہوں سے کسانوں کو چھٹکارہ دلانے کے لیے ہے جو اب تک ان کی مجبوری کا فائدہ اٹھا رہے تھے۔

مسٹر مودی نے ویڈیو کانفرنسنگ کے توسط سے بہار میں نیشنل ہائی وے (این ایچ) اور پل تعمیر کے نومنصوبوں کا آغاز کرنے کے بعد تقریب کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی پارلیمنٹ نے کل ملک کے کسانوں کو نئے حقوق دینے والے بہت ہی تاریخی قوانین کو پاس کیا ہے۔ یہ اصلاح 21 ویں صدری کے بھارت کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں اب تک اپج اور فروخت کا جو نظام چلا آرہا تھا اور جو قوانین تھے اس نے کسانوں کے ہاتھ۔ پاﺅں باندھ رکھے تھے۔ ان قوانین کی آڑ میں ملک میں ایسے طاقت ور گروہ پیدا ہو گئے تھے جو کسانوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھارہے تھے۔ آخر یہ کب تک چلتا رہتا۔ اس لیے اس نظام کو تبدیل کرنا ضروری تھا اور یہ تبدیلی ان کی حکومت نے کرکے دکھایا ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ بڑے نظام کی تبدیلی کے بعد کچھ لوگوں کو اپنے ہاتھ سے کنٹرول جاتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ اس لیے یہ لوگ کم از کم سپورٹ ( ایم ایس پی ) قیمت پر لوگوں کو گمراہ کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو برسوں تک ایم ایس پی پر سوامی ناتھن کمیٹی کی سفارشات کو اپنے پیروں کے نیچے دبا کر رکھے ہوئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ وہ ملک کے ہر ایک کسان کو اس بات کی یقین دہانی کراتے ہیں کہ ایم ایس پی کا نظم جیسے پہلے سے چلتا آرہا تھا ویسے ہی آئندہ بھی جاری رہنے والا ہے۔ اسی طرح ہر موسم میں سرکاری خرید کے لیے جس طرح سے مہم چلائی جاتی رہی ہے وہ بھی پہلے کی طرح ہی چلتی رہیں گی۔

مسٹر مودی نے کہا کہ نئی زرعی اصلاحات نے ملک کے ہر کسان کو یہ آزادی دی ہے کہ وہ کسی کو بھی اور کہیں پر بھی اپنی فصل، پھل۔سبزیاں اپنی شرطوں پر بیچ سکتا ہے۔ اب اسے اپنے علاقے کی منڈی کے علاوہ بھی کئی اور آپشن مل گئے ہیں۔ اب اسے جہاں بھی منڈی میں زیادہ فائدہ ملے گا وہ وہاں جاکر اپنی پیداوار فروخت کرے گا۔ منڈی کے علاوہ اگر کہیں زیادہ فائدہ ملتا ہے تو وہاں جاکر فروخت کرے گا۔

وزیر اعظم نے کہا کہ اب سوال یہ ہے کہ آخر اس سے فرق کیا پڑے گا اور اس سے کسانوں کو کیا فائدہ ہوگا اور یہ کس طرح سے کسانوں کی معاشی حالت کو بدلنے میں مدد گار ہوگا۔ اس کا جواب اب گراﺅنڈ رپورٹنگ سے ہی مل رہی ہے۔ کسانوں کو ملی اس آزادی کے کئی فائدے دکھائی دینے شروع بھی ہو گئے ہیں کیونکہ اس کا آرڈیننس کچھ مہینے قبل لایا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ایسی ریاست جہاں آلو بہت ہوتے تھے وہاں سے رپورٹ ہے کہ جون۔جولائی کے دوران ہول سیل خریداروں نے کسانوں کو زیادہ منافع دے کر سیدھے کولڈ اسٹوریج سے ہی آلو خرید لیا ہے۔ باہر کسانوں کو آلو کے زیادہ دام ملے تو منڈیوں نے بھی کسانوں کو زیادہ دام دیے۔

مسٹر مودی نے کہا کہ اس طرح مدھیہ پردیش اور راجستھان سے ملی رپورٹ کے مطابق تیل ملوں نے کسانوں کو سیدھے 20 سے 30 فیصد زیادہ دام دے کر سرسوں کی خرید کی ہے۔ ان ریاستوں میں گذشتہ برس کے مقابلے میں 15 سے 25 فیصد زیادہ دام سیدھے کسانوں کو ملے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس سے اب ملک اندازہ لگا سکتا ہے کہ اچانک کچھ لوگوں کو کیوں دقت ہونی شروع ہوگئی ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ کئی جگہوں سے سوال اٹھائے جارہے ہیں کہ زرعی منڈیوں کا اب کیا ہوگا۔ وہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ یہ قانون زرعی منڈیوں کے خلاف نہیں ہے۔ زرعی منڈیوں میں جیسے کام پہلے ہوتے تھے ویسے ہی اب بھی ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ یہ قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) کی ہی حکومت ہے جس نے زرعی منڈیوں کو جدید بنانے کے لیے مسلسل کام کیا ہے۔ وہاں کمپیوٹرائزیشن کے لیے گذشتہ پانچ۔ چھ برس سے ملک میں بڑی مہم چل رہی ہے۔ اس لیے جو یہ کہتے ہیں کہ زرعی منڈیاں ختم ہوجائیں گی تو وہ کسانوں سے جھوٹ بول رہے ہیں۔

مسٹر مودی نے کہا کہ بہت پرانی کہاوت ہے کہ تنظیم میں طاقت ہوتی ہے۔ زرعی اصلاحات سے متعلق دوسرا قانون اسی سے حوصلہ افزا ہے۔ آج ملک میں 85 فیصد سے زائد کسان ایسے ہیں جن کے پاس بہت کم زمین ہے۔ سب چھوٹے کسان ہیں، اس وجہ سے ان کا خرچ بھی بڑھ جاتا ہے اور انہیں اپنی تھوڑی سی پیداوار فروخت کرنے مناسب قیمت بھی نہیں ملتی ہے۔ لیکن جب کسان ایک تنظیم بناکر یہ کام کرتے ہیں تو ان کا خرچ بھی کم ہوتا ہے اور انہیں پیداوار کے دام بھی صحیح ملتے ہیں۔

بہار سے آئے خریدار ان تنظیموں سے باقاعدہ سمجھوتا کرکے سیدھے ان کی پیداوار خرید سکتے ہیں۔ ایسے میں کسانوں کے مفادات کی حفاظت کے لیے دوسرا قانون بنایا گیا ہے۔

ایک ایسا قانون جہاں کسانوں پر کوئی بندش نہیں ہوگی۔ کھیت اور اس کی حفاظت کھاد اور بیج کی گارنٹی معاہدہ کرنے والے کی ہوگی۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ان اصلاحات سے زراعت میں سرمایہ کاری بڑھے گی۔ کسانوں کو جدید تکنیک ملے گی اور ان کی پیدوار بین الا قوامی بازار میں پہنچیں گے۔ حال ہی میں بہار میں پانچ زرعی مینو فیکچر یونین (ایف پی او) نے مل کر چاول فروخت کرنے والی ایک مشہور کمپنی کے ساتھ معاہد کیا ہے۔

اس کے تحت چار ہزار ٹن دھان بہار کے ان ایف پی او سے خریدے گی۔ ان ایف پی او سے منسلک کسانوں کو منڈی نہیں جانا پڑے گا۔ ان کی پیداوار اب بین الاقوامی بازار میں پہنچے گی۔ زراعت سے منسلک صنعتوں کے لیے بڑا راستہ کھلے گا۔

مسٹر مودی نے کہا کہ زرعی تجارت کرنے والوں کے سامنے ضروری اشیاء ایکٹ کے نظم بڑی رکاوٹ کی طرح رہے ہیں۔ اس میں بھی تبدیلی کی گئی ہے۔

دال، آلو اور خوردنی تیل جیسی اشیاء اس ایکٹ سے باہر کر دی گئی ہیں۔ اب ملک کے کسان بڑے۔بڑے اسٹور ہاﺅس اور کولڈ اسٹوریج میں ان کا آسانی سے اسٹور کر پائیں گے۔ جب اسٹور سے منسلک قانونی دشواریاں دور ہوں گی تو ملک میں کولڈ اسٹوریج کا بھی نیٹ ورک فروغ پائے گا۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details