پروفیسر قاضی عبید الرحمن ہاشمی نے کہا کہ پروفیسر شہپر رسول نے شعبے کی علمی و ادبی سرگرمیوں میں نہایت فعال کردار ادا کیا ہے۔ پروفیسر عبدالرشید بہت کم گو لیکن باریک تحقیقی نظر کے حامل ہیں۔ ان کے یہاں ایک خاص قسم کا رکھ رکھاؤ اور وضع داری ہے جو اب اس زمانے میں تقریباً ناپید ہے۔
پروفیسر شہناز انجم نے شہپر رسول سے اپنے عزیزدارانہ اور دیرینہ تعلقات کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ہم دونوں نے پروفیسر عنوان چشتی کی نگرانی میں پی ایچ۔ ڈی کیا ہے۔ شہپررسول کا تحقیقی مقالہ ’اردو غزل میں پیکرتراشی‘ ایک حوالے کی کتاب ہے۔ پروفیسر عبدالرشید دہلوی تہذیب کے زندہ مرقع ہیں۔ ان کا غیر معمولی علمی شغف متاثر کن ہے۔
ڈاکٹر سہیل احمد فاروقی نے شعبہ اردو کو پروفیسر شہپر رسول نے محبت و یگانگت کی یہ فضا قائم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ پروفیسر عبدالرشید بھی انہیں میں سے ہیں، جن کے مزاج میں خاک ساری، ملنساری اور تواضع کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔
پروفیسر احمد محفوظ نے نم دیدہ اور جذباتی لہجے میں کہا کہ پروفیسر شہپر رسول کا شعبے سے رخصت ہونا میرے لیے ذاتی طور پر ایک جذباتی لمحہ ہے۔ پروفیسر عبدالرشید میرے یار غار ہیں۔ بے پناہ شخصی خوبیوں کے مالک ہیں۔ ان کے استغراق اور انہماک کو دیکھتے ہوئے انھیں فنا فی العلم کہنا بے جا نہ ہوگا۔