نئی دہلی: سال 2020 میں ہاتھرس جاتے ہوئے یو پی پولیس نے 4 لوگوں کو گرفتار کیا تھا جس میں کیمپس فرنٹ آف انڈیا سے رؤف شریف، صحافی صدیق کپن سوشل ایکٹیوسٹ عتیق الرحمان سماجی کارکن مسعود احمد اور گاڑی کا ڈرائیور محمد عالم شامل تھے۔ Atiqur Rahman Family Blame Uttar Pradesh Govt And Police Over Medical Facilities
اس معاملے میں محمد عالم اور صدیق کپن کو عدالت سے ضمانت مل چکی ہے جب کہ دیگر تمام افراد گذشتہ 23 ماہ سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ ان 23 ماہ کے دوران عتیق الرحمان کی متعدد بار طبیعت خراب ہوئی حالانکہ اس درمیان عتیق الرحمن کو بیماری قلب کی وجہ سے ایمس میں بھی علاج چلا لیکن اس کے باوجود انہیں ضمانت نہیں دی گئی۔اب عطیق الرحمان کے اہل خانہ کا دعوی ہے کہ انہیں فالش ہو گیا ہے۔
اسی سے متعلق ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے عتیق الرحمن کے ماموں سخاوت علی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ 29 اگست پولیس نے عتیق الرحمان کے پیرالائز ہونے کی خبر دی تھی جس کے بعد ہم لکھنو کے ہسپتال میں جاکر دیکھا جہاں عطیق تین دن تک بے ہوشی کی حالت میں رہا۔
وہیں دہلی یونیورسٹی کی پروفیسر نندیتا نارائن نے کہا کہ جب اجتماعی جنسی زیادتی کرنے والے مجرمین کو رہا کیا جا سکتا ہے تو عتیق الرحمان کو کیوں نہیں۔ان کے خلاف تو ابھی کوئی جرم ثابت بھی نہیں ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ عتیق الرحمان شروع سے ہی بیمار ہیں۔اب ان کی حالت بھی زیادہ سنجیدہ ہے۔ایسے میں ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ انہیں جلد از جلد ضمانت دی جائے اور انہیں بہتر علاج مہیا کرایا جائے۔
وہیں عتیق الرحمن کی والدہ نے بتایا کہ ان کے بیٹہ گزشتہ دو سال سے جیل میں بند ہے۔کسی ماں سے اس کا بچہ 2 گھنٹے بھی دور ہو جائے تو وہ پریشان ہو جاتی ہے لیکن میرا بیٹا تو بے قصور ہونے کے باوجود 2 سال سے جیل میں سزا کاٹ رہا ہے۔