نئی دہلی: اس وقت ملک کے جو حالات ہیں اس میں اردو کو تنزلی کی جانب گامزن ہونے کا الزام لگایاجاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ اردو اب ختم ہونے کے قریب ہے، لیکن جس حساب سے رواں ماہ میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کی مالی معاونت سے اردو کی مایہ ناز شخصیات، ادبا، شعرا اور تخلیق کاروں، اردو اسکالرز، پروفیسرز، ادبا کے مقالہ کے ذریعہ منظرعام پر لانے کی کوششیں کی جاری ہیں۔ اس سے لگتا ہے کہ اردو ترقی کی جانب گامزن ہے۔ اس سلسلے میں ای ٹی وی بھارت نے دہلی یونیورسٹی شعبہ اردو کے سربراہ اور معروف افسانہ نگار پروفیسر ابن کنول سے خاص بات چیت کی۔
انہوں نے کہا کہ اردو کا اگر محاسبہ کیا جائے تو اردو تنزلی کی طرف نہیں بلکہ ترقی کی جانب گامزن ہے۔ انہوں نے کہا کہ انیس ویں صدی کے مقابلے بیسویں صدری میں اردو پروان چڑھ رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ بیسویں صدی میں اردو ختم ہورہی ہے یا فراموش کی جارہی ہے اس سےصحیح جانکاری نہیں ہےبلکہ اس وقت اردو پڑھنے والے اور بولنے والوں کی تعداد کافی زیادہ ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ اردو اسکرپٹ پڑھنے والوں کی تعداد کچھ کم ہوئی ہے۔
ابن کنول نے کہا کہ میں دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے وابستہ ہوں، وہاں پر چالیس سال قبل ایم اے میں صرف 20 سے 25 اسٹوڈنٹس ہوا کرتے تھے لیکن بیسویں صدی میں فرسٹ ایئر میں 70 سے 80 بچے ہیں۔ اسی طرح کی پی ایچ ڈی میں بھی بہت سارے طلبا آرہے ہیں اور بیشتر کو داخلہ تک نہیں مل پاتی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اردو ترقی کی طرف گامزن ہے۔اگر میڈیا میں بھی دیکھیں تو اردو کے الفاظ کافی استعمال کیے جارہے ہیں۔
معروف افسانہ نگارنے کہا کہ ایک وقت تھا دکن میں اردو کم بولی جاتی تھی لیکن آج حالت یہ ہے کہ دبستان لکھنؤ اور دبستان دہلی میں اردو ضرور کم ہوئی لیکن دکن میں موجودہ حالات میں پروان چڑھ رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر ملک بھر کا احاطہ کیا جائے تو جموں وکشمیر سے کنیا کماری تک میں آج بھی اردو کافی بولی جاتی ہے۔