تین درجن سے زائد کتابوں کے مصنف 'شب خون' کے مدیر، معروف نقاد شمس الرحمٰن فاروقی 85 برس کے عمر میں اپنے آبائی وطن اترپردیش کے شہر پریاگ راج میں انتقال کرگئے۔
سوال: شمس الرحمٰن فاروقی نے اردو دنیا میں طویل عرصے تک لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کی ہے، کیا آج ان کی جگہ کوئی لے سکتا ہے؟
جواب: شمس الرحمٰن فاروقی اردو دنیا کا شمس تھے۔ اب وہ رحمٰن کی گود میں پہنچ گئے ہیں۔ جہاں تک ان کی جگہ لینے کی بات ہے یہ تو وقت بتائے گا، لیکن جو بات حق و سچ ہے وہ یہ ہے کہ یہ شش جہت قسم کے عالم تھے۔ کسی کا انتقال ہونے پر ہم یہ قول دہراتے ہیں کہ ایک عالِم کا جب انتقال ہوتا ہے تو ایک عالَم کا خاتمہ ہوتا ہے۔ یہ قول ان پر صد فی صد صادق آتا ہے۔
سوال: وہ بارہا کہا کرتے تھے کہ بنائیں گے ایک نئی دنیا ہم اپنی، تیری دنیا میں اب رہنا نہیں ہے۔ ظاہر ہے اب وہ اس دنیا میں ہیں۔ اس شعر سے وہ کیا مراد لیتے تھے ؟
موت برحق ہے اور ہر کسی کو موت کا مزہ چکھنا ہے تاہم جانے سے پہلے آپ ایسے کارنامے کر کے جائیں کہ قیامت تک لوگ آپ کو یاد رکھیں۔ مرحوم کے خدمات ایسے ہیں جو تا قیامت لوگوں کے دلوں میں محفوظ رہیں گے۔ انہوں نے اردو ادب کی ہمہ جہت خدمات انجام دی ہیں۔ اور اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ انہیں اعزازات و انعامات کسی کی سفارش سے حاصل نہیں ہوئے بلکہ انعامات و اعزازات نے ان کے قدم چومے۔ مصلحت اور منافقت انہیں چھو کر بھی نہیں گزری۔
جہاں تک تنقید کی بات ہے جب انہوں نے افسانے کی حمایت میں کتاب لکھی تو لوگوں کو یہ اندازہ ہوا کہ انہوں ںے بنی بنائی ڈگر پر نہیں بلکہ اپنا راستہ خود بنایا ہے۔ انہوں نے کبھی پیشہ ورانہ اردو میں کام نہیں کیا بلکہ اعزازی طور پر اردو کے لیے خدمات انجام دیں۔ پیشہ سے پوسٹ ماسٹر تھے اور انگریزی سے ان کا تعلق تھا تاہم اردو سے قلبی محبت تھی۔ جو ان کی تحریروں میں جھلکتی ہے۔