دہلی: جمعیۃ علماء ہند کی کوششوں سے ساڑھے تین سال بعد عارف کے گھر خوشی لوٹی۔ ضلع عدالت نے عرضی خارج کردی تھی۔ اہل خانہ نے صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی کا شکریہ ادا کیا- شمالی مشرقی دہلی میں ہوئے فرقہ وارانہ فساد سے متعلق ایک ضمانت عرضی کی سماعت کرتے ہوئے دہلی ہائی کورٹ نے پیر کو دو ملزموں کی ضمانت منظور کرلی، یہ مقدمہ ایک راہگیر راہل سولنکی کے قتل سے جڑا ہوا ہے، جسے گولی لگنے کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا تھا۔
جسٹس امت بنسل نے آج عارف اور انیس قریشی کو ضمانت دے دی، دونوں 09 مارچ 2020 سے زیر حراست میں ہیں. عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ مقدمے کی سماعت میں زیادہ وقت لگ سکتا ہے، لہذا ملزمان کو غیر معینہ مدت تک قید میں نہیں رکھا جا سکتا۔ عارف کا مقدمہ جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے مقرر کردہ وکیل ایڈوکیٹ سلیم ملک لڑرہے ہیں۔ ساڑھے تین سال بعد عارف کو ضمانت ملی ہے، جس سے اس کے اہل خانہ میں خوشی کا ماحول ہے، جمعیۃ کے وکیل ایڈوکیٹ سلیم ملک نے بتایا کہ اہل خانہ نے قانونی امداد فراہم کرنے کے لیے صدر جمعیۃ علماء ہندمولانا محمود اسعد مدنی، ناظم عمومی مولانا حکیم الدین قاسمی اور قانونی امور کے نگراں ایڈوکیٹ نیاز احمد فاروقی کا شکریہ ادا کیا ہے۔
حالانکہ عدالت نے ایک اور ملزم محمد کی ضمانت مسترد کر دی۔ ان ملزمان پر دیال پور پولیس اسٹیشن میں تعزیرات ہند کی دفعہ 302، 149، 147، 148، 436، 120 اور 34 کے تحت مقدمہ درج ہے۔ واضح ہو کہ 24 فروری 2020 کو راہل سولنکی کو فسادات کے دوران گولی لگنے سے چوٹ آئی جسے ڈاکٹر نے بعد میں مردہ قرار دے دیا۔ اگلے دن اس کا پوسٹ مارٹم کیا گیا۔ابتدائی تفتیش تھانہ دیال پور کے پولیس اہلکاروں نے کی۔ بعد میں 7 مارچ، 2020 کو مزید تحقیقات کے لیے جانچ ایس آئی ٹی، کرائم برانچ کو سونپ دی گئی۔
دونوں ملزمان کی ضمانت منظور کرتے ہوئے عدالت نے مشاہدہ کیا کہ ریکارڈ پر موجود شواہد یہ بتاتے ہیں کہ عارف اور انیس قریشی غیر قانونی اسمبلی کا حصہ تھے۔ عدالت نے مزید کہا، ’’میرے خیال میں، محض اس لیے کہ ملزمین (عرضی گزار برائے ضمانت) اسمبلی کا حصہ تھے، اس سے یہ تصور اخذ نہیں کیا کہ اسمبلی کا مشترکہ مقصد کسی کو قتل کرنا تھا، یہ دونوں درخواست دہندگان 9 مارچ 2020 سے عدالتی تحویل میں ہیں۔