چارلی ہیبڈو کے ذریعہ نبی پاکﷺ کی شان میں گستاخی کرنے پر 'مسلم سحر فاؤنڈیشن' نے سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فرانس کے صدر کے نام نئی دہلی میں واقع فرانس کے سفارت خانے میں اپنی ناراضگی درج کرائی۔'
اسی طرح یہی شکایت اقوام متحدہ (یو این او) کے سکریٹری جنرل کے نام بھی یو این ریزیڈنٹ کوآرڈینیٹر (نئی دہلی) کو دی ہے۔ احتجاج کے دوران علامتی طور پر چارلی ہیبڈو میگزین کے سر ورق کو بھی نذر آتش کیا گیا۔
اس مسئلے پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے 'بچوں کا گھر (دریا گنج)' میں ایک میٹنگ منعقد کی گئی۔
ایڈوکیٹ صدیقی نے بتایا کہ 'اس سے قبل چارلی ہیبڈو نے ڈینش اخبار 'جل لینڈس پوسٹین' میں شائع متنازع کارٹون اپنی میگزین میں شائع کئے تھے جس کی عالم اسلام میں بہت مذمت ہوئی تھی اور مسلمانان اسلام نے اپنے غم و غصے کا اظہار کیا تھا کیونکہ اس متنازع کارٹون میں حضورﷺ کو دکھایا گیا تھا جبکہ دین اسلام میں حضورﷺ کی تصویر یا کسی بھی طرح کا خاکہ بنانا حرام ہے۔'
اس واقعے کے بعد سنہ 2015 میں چارلی ہیبڈو کے دفتر میں حملہ کر کے 12 لوگوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔
اب رواں ماہ کے پہلے ہفتے میں پانچ برس بعد اس مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو چارلی ہیبڈو نے مسلمانوں کے جذبات اور مذہبی عقیدے کو ٹھیس پہنچانے کا کام کیا ہے۔
مسرور الحسن صدیقی نے کہا کہ 'چارلی ہیبڈو کے ذریعے بار بار حضورﷺ کی شان میں گستاخی کی ہم سخت مذمت کرتے ہیں۔'
انہوں نے کہا کہ 'اظہار خیال کی آزادی کا یہ مطلب قطعی نہیں کہ ہم کسی بھی مذہب کے پیغمبر کی توہین کریں یا کسی عام انسان کو ہی عوام میں برا بھلا کہا جائے۔'
مسرور الحسن صدیقی نے کہا کہ 'کسی مذہب سے یا اس کے ماننے والوں سے تو اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اللہ کے بھیجے ہوئے پیغمبروں کو برا بھلا کہنا قطعی قبول نہیں کیا جا سکتا۔'
انہوں نے کہا کہ 'چارلی ہیبڈو میگزین کی بہت پرانی روایت رہی ہے کہ یہ مختلف مذاہب جیسے کہ کیتھولک، عیسائی، یہودیت اور اسلام کی برائی اور نکتہ چینی کرتے رہے ہیں اور ساتھ ہی انہوں نے سیاست دانوں کو بھی نہیں بخشا ہے۔ سابق فرانسیسی صدر جیک شراک نے اس میگزین پر پابندی عائد کی تھی اور کچھ عرصے سے ان کی شرارت خاموش تھیں لیکن موجودہ فرانسیسی صدر ایمانوئیل میخواں اس متنازع میگزین پر کسی طرح کی پابندی لگانے کے حق میں نہیں ہیں اور وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ آزادیٔ اظہار خیال کے زمرے میں آتا ہے جس پر پابندی لگانا مناسب نہیں ہے۔'
ایڈوکیٹ صدیقی نے مزید کہا کہ 'عالم اسلام میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے امن پسند لوگوں نے رسولﷺ کو دنیا کا سب سے امن پسند اور انسانیت کا دوست قرار دیا ہے، اس لیے ہم سب کو چاہیے کہ ایسے نبیﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والوں کی اپنے طور پر ہر سطح پر مذمت و مخالفت کریں اور عالمی دنیا پر ایسا دباؤ بنائیں کہ ہر ملک کی حکومت سے فرانس کی حکومت پر دباؤ بنائے کہ وہ اس گستاخِ رسولﷺ پر فوراً پابندی عائد کر کے سزا دینے کا عمل انجام دے۔'
انہوں نے کہا کہ 'ہم وزارت اقلیتی امور، وزارت خارجہ اور وزیر اعظم نریندر مودی سے گزارش کریں گے کہ وہ فرانسیسی حکومت سے اپنے سفارتی چینلجز کے ذریعے اس بات کو اٹھائیں تاکہ رسول اکرمﷺ کی شان میں جو گستاخ کارٹون شائع ہو رہے ہیں ان پر فوری طور پر پابندی لگائی جائے۔'