نئی دہلی:دہلی تشدد کے الزام میں گرفتار جواہر لال یونیورسٹی کے سابق طالب علم عمر خالد کی ضمانت کے معاملے میں پیر کو دہلی ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی۔ اس دوران دہلی پولیس نے عدالت کو بتایا کہ جیسے ہی فساد کی سازش کے سلسلے میں پہلا مقدمہ درج ہوا، تمام واٹس ایپ گروپس کو ڈیلیٹ کر دیئے گئے، اس کے ساتھ گروپ میں شامل تمام لوگ ایک دیگر موبائل ایپ سگنل پر رجسٹر ہوئے،ساتھ ہی پولیس نے کہا کہ راہل رائے نے بھی چار لوگوں کو گروپ سے نکالا، جن میں سے دو لوگ وہ تھے جو تشدد کے وقت بھی موقع پر موجود تھے۔
کیس میں ہائی کورٹ نے پولس سے پوچھا کہ کیا راہل رائے اس معاملے میں ملزم ہے یا گروپ کو پیغامات بھیجنے کے معاملے میں ملزم ہے، اس پر پولس نے کہا کہ راہل رائے ملزم نہیں ہے بلکہ اس گروپ کے دیگر کئی افراد ملزم ہیں،دہلی پولیس نے عدالت میں جعفرآباد موج پور علاقے اور وزیرآباد روڈ کا نقشہ عدالت میں دکھایا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم کا مقصد پورے علاقے کی ناکہ بندی کرنا تھا۔
دہلی پولیس نے کہا کہ 2019 اور 2020 میں دو مرحلوں میں تشدد ہوا، دونوں مرحلوں کے تشدد میں ملوث لوگ ایک ہی تھے۔ تشدد کے پہلے مرحلے کی ناکامی کے بعد تشدد کے دوسرے مرحلے کی تیاریاں شروع ہوگئیں لیکن شکل وہی رہی۔ دہلی پولیس نے کہا کہ احتجاج افواہوں کی بنیاد پر شروع ہوا۔ دہلی پولیس نے کہا کہ 4 دسمبر 2019 کو مرکزی حکومت نے سی اے اے کو منظوری دی، اگلے ہی دن ایک واٹس ایپ گروپ بنایا گیا، شرجیل امام اس کے فعال رکن تھے۔ دہلی پولیس نے کہا کہ جامعہ (ایس او جے) کے طلباء نے پمفلٹ تقسیم کیے تھے، جن میں سیکولرازم، جمہوریت اور قوم پرستی کے خلاف لوگوں کی ایک انجمن بنانے کے لئے کہا گیا تھا۔
دہلی پولیس نے کہا کہ شرجیل امام نے وہ پمفلٹ لکھا تھا، پمفلٹ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان کی شکایت سی اے اے این آر سی کے خلاف نہیں تھی، وہ بابری مسجد اور کشمیر کے خلاف ہے۔ دہلی پولیس نے کہا کہ عمر خالد کی تقریروں کا پیٹرن بابری مسجد، تین طلاق، کشمیر، مسلمانوں کو دبایا جانا اور سی اے اے این آر سی جیسے موضوعات پر تقریروں کے ذریعے مسلمانوں میں خوف پیدا کرنا تھا۔
مزید پڑھیں: