دہلی پولیس کے ایک خصوصی دستہ نے دہلی اقلیتی کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کو گرفتار کرنے کی کوشش کی، جسے موقع پر موجود با اثر شخصیات نے ناکام بنادیا۔
پولیس نے ڈاکٹر خان کا موبائل اور لیپ ٹاپ بھی قبضہ میں لینا چاہا لیکن ڈاکٹر ظفر اسلام خان نے منع کردیا۔
ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کو گرفتار کرنے کی کوشش واضح رہے کہ دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کے ایک بیان پر دہلی پولیس نے گزشتہ دنوں ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا تھا جس پر مختلف سماجی حلقوں سے شدید رد عمل سامنے آیا۔ اب دہلی پولیس نے وہ کردیا جس کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی تھی۔
بدھ کو دیر شام عین افطار کے وقت دہلی پولیس کا ایک خصوصی دستہ ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کے گھر پہنچا اور انہیں حراست میں لینے کی کوشش کی لیکن اچانک ان کی رہائش گاہ پر علاقہ کے اثر دار شخصیات جمع ہوگئے، جن کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر خان پر جو مقدمہ درج ہے اس کے حساب سے تحقیقات کے لیے انہیں گرفتار کرنا ضروری نہیں۔
تھوڑی ہی دیر میں ڈاکٹر خان کی وکیل ورندا گروور نے بھی ایک بیان جاری کرکے ڈاکٹر خان کی گرفتاری کو تعزیرات ہند کی دفعات کی خلاف ورزی قرار دیا۔
موقع پر موجود عمر خالد کے والد اور مشہور مسلم سماجی کارکن ڈاکٹر قاسم رسول الیاس نے بتایا کہ پولس انہیں گرفتار کرنے آئی تھی لیکن بڑی تعداد میں مقامی لوگ جمع ہوگئے اور اسی وقت رکن اسمبلی امانت اللہ بھی آگئے۔
پولیس نے ڈاکٹر خان کو پوچھ تاچھ کے لیے تھانہ آنے کو کہا جس سے ڈاکٹر خان نے انکار کردیا ۔
ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کی عمر70 سال سے زیادہ ہے اور انہیں تھانہ میں نہیں بلایا جاسکتا، پھر پولیس نے ڈاکٹر خان سے ان کا لیپ ٹاپ مانگا جو انہوں نے دینے سے منع کردیا۔ اب پولیس پوچھ تاچھ کے لیے پرسوں گھر پر ہی آئے گی۔
تقریباً ایک گھنٹہ تک پولیس ڈاکٹر خان کے ساتھ ان کے گھر میں بیٹھی رہی،کیا باتیں ہوئیں ،نہ تو پولیس نے بتایا اور نہ ہی ڈاکٹر خان نے اس کی تفصیلات دی ہے۔
تاہم ڈاکٹر خان کی رہائش گاہ پر پولیس کے چھاپہ سے مسلم قیادت میں شدید ناراضگی پھیل گئی ہے۔ سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی آف انڈیا کے قومی سکریٹری ڈاکٹر تسلیم رحمانی نے پولیس کے اس عمل کی شدید تنقید کی اور کہا کہ یہ انہیں خاموش کرنے کی ایک سیاسی کوشش ہے۔
ڈاکٹر ظفرالاسلام خان سے تنظیمی اختلاف رکھنے والے آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر نوید حامد نے بھی پولیس کے ایکشن کو جمہوریت مخالف قرار دیا اور حکومت اور پولیس کو متنبہ کیا اور دوبارہ اس طرح کی کوشش سے باز رہنے کا مشورہ دیا۔
دہلی کے مشہور عالم دین مہدی حسن عینی نے کہا کہ ڈاکٹر ظفرالاسلام خان پر حکومت کی نگاہ اسی دن سے ٹیڑھی ہوگئی تھی جب انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلباء پر پولیس لاٹھی چارج کے خلاف نوٹس جاری کیا تھا۔
دہلی فسادات میں بھی انہوں نے دہلی پولیس کے خلاف کئی آئینی اقدامات کیے ہیں۔ ڈاکٹر ظفرالاسلام صرف ایک دانشور اور مفکر نہیں بلکہ ملت کا ایک نڈر اور مکھر چہرہ ہیں، گزشتہ چھ مہینوں میں انہیں بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ ان کا نظریہ، ان کی سوچ اور کام کرنے کا اسٹائل ہمیشہ اقدامی ہوتا ہے۔ آج اگر ان کے خلاف حکومتی لابی سرگرم ہے اور ان کے گھر پولیس پہنچ رہی ہے تو یقین جانئے اس مرتبہ فاشسزم نے ریڑھ کی ہڈی پر وار کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
ملی رہنما اور مصنف ڈاکٹر عبید عاصم اقبال نے ایک واٹس ایپ پوسٹ میں لکھا کہ ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کے گھر پر پولیس کی چھاپہ ماری جمہوریت کے نام پر بد نما داغ ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ملک پوری طرح ڈکٹیٹر شپ کی طرف بڑھ رہا ہے جہاں پر مظلوموں کو کچھ بھی بولنے اور اقلیتوں پر کی جانے والی زیادتی پر فریاد رسی کی کوئی گنجائش نہیں ہے اس کے برخلاف اقلیتوں پر کھلے عام حملہ کرنے والے دندناتے پھر رہے ہیں اور ان کے خلاف نامزد ایف آئی آر درج ہونے کے باوجود کوئی بھی کاروائی نہیں ہو رہی ہے۔
خالد انور پوری نے کہاکہ لاک ڈاؤن کے باوجود ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کے حوالہ سے جو خبریں دیکھنے اور سننے کو مل رہی ہیں وہ انتہائی شرمناک والمناک ہیں آج بھی پولیس ان کے گھر پر پہنچی لیکن انہیں کامیابی نہیں مل سکی، اس طرح کے واقعات ادھر مسلسل پیش آرہے ہیں جس سے پردہ اٹھنا اور اٹھایا جانا بے انتہا ضروری ہے۔
انہوں نے سوال اٹھایاکہ کیایہ سچ ہے کہ سرکار لاک ڈاؤن کا پورا فائدہ اٹھانا چاہ رہی ہے۔ سی اے اے، این آر سی کے خلاف جن نوجوانوں نے عملی طورپر حصہ لیا تھا اور اس لڑائی کو مضبوطی دینے میں اپنا بہترین کردار پیش کیا تھا، دہلی پولیس کے نشانے پر وہ نوجوان تو نہیں ہیں؟
واضح ہوکہ ڈاکٹر ظفراسلام خان کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 124 (اے) کے تحت (بغاوت اور اشتعال انگیزی) کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
یہ مقدمہ ان پر اس الزام میں درج کیا گیا ہے کیونکہ انہوں نے اپنے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں شمال مشرقی دہلی کے فسادات کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے حکومت کویت کا شکریہ ادا کیا تھا اور اس کے ساتھ ہی ان جارحیت پسند ہندتوا عناصر کو متنبہ کیا تھا۔اس پوسٹ کی بنیاد پرمتعدد نیوز چینلز نے ان پر سنگین الزامات عائد کیے تھے۔