نئی دہلی: جسٹس پرتیک جالان نے مرکزی حکومت کے وکیل کو ان کی درخواست پر وقت دینے کی اجازت دی تاکہ وہ دہلی وقف بورڈ کے ذریعے کیے گیے دعویٰ پر غور و خوض کر سکیں۔ درخواست میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ نوٹس 'عام نوعیت' کے ہیں جن میں دو مساجد تلک مارگ پر ریلوے پل کے قریب مسجد تکیہ ببر شاہ اور بابر مارگ پر واقع مسجد بچو شاہ، جسے بنگالی مارکیٹ مسجد بھی کہا جاتا ہے غیر مجاز نہیں ہیں اور زمین ریلوے کی نہیں ہے۔
عدالت نے نوٹ کیا کہ نوٹسز پر دستخط نہیں کیے گئے، اس کے ساتھ ہی اس پر اتھارٹی کا ذکر نہیں کیا گیا جس کے تحت یہ جاری کیے جاتے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ یہ کس قسم کا نوٹس ہے؟ کچھ عام بات… کیا اسے ہر جگہ چسپاں کیا جا رہا ہے؟ اس پر جس طرح لکھا ہے، اسے کسی بھی جگہ (عمارت پر) چسپاں کیا جا سکتا ہے۔ اس میں کسی عمارت، کسی تاریخ، کسی چیز کا ذکر نہیں ہے۔
عدالت نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ نوٹس ایک عام نوٹس ہے جو مبینہ طور پر ریلوے انتظامیہ، شمالی ریلوے، دہلی کی طرف سے جاری کیا گیا ہے، جس میں عوام سے 15 دنوں کے اندر اندر ریلوے کی زمین سے مندروں/مسجدوں/مزاروں کو رضاکارانہ طور پر ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا ہے، ایسا نہ کرنے کی صورت میں انہیں ریلوے انتظامیہ ہٹا دے گی۔
عدالت نے حکم دیا، "مذکورہ نوٹس غیر دستخط شدہ، بغیر تاریخ کے ہیں اور ان میں اس اتھارٹی کا ذکر نہیں ہے جس کے تحت انہیں جاری کیا گیا ہے۔ فی الحال، ان نوٹسز کی بنیاد پر کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔مرکزی حکومت کے وکیل نے کہا کہ وہ اس معاملے پر "واضح ہدایات" لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ دونوں مساجد ان 123 ڈی لسٹ کی گئی جائیدادوں میں شامل ہیں جو مرکز نے عرضی گزار سے لی تھیں۔عدالت نے مرکز کے وکیل کو اس بارے میں ہدایات طلب کرنے کا وقت دیا کہ آیا ریلوے کی طرف سے نوٹس ان کی موجودہ شکل میں جاری کیے گئے تھے۔
درخواست گزار کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل وجیہ شفیق نے بتایا کہ 19 اور 20 جولائی کو ان مساجد پر نوٹس چسپاں کیے گئے جو کئی دہائیوں سے موجود ہیں اور تحقیقات کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ ڈویژنل ریلوے منیجر کے دفتر سے جاری کیے گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ نوٹس میں کوئی فائل نمبر، تاریخ، دستخط، نام یا اسے جاری کرنے والے شخص کا عہدہ درج نہیں ہے۔