دہلی فساد معاملے کی سماعت کرنے والے ایڈیشنل سیشن جج ونود یادو نے نا کافی ثبوت و شواہد اور ناقص تفتیش کی وجہ سے تین مسلم نوجوانوں کو مقدمہ سے بری کردیا۔ اس فیصلے پر جمعیۃ علمائے ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے کہاکہ عدالت کے فیصلہ سے ہمارے موقف کو تقویت ملتی ہے کہ دہلی پولس نے ناقص تفتیش کرکے مسلمانوں کو پھنسایا ہے۔
جمعیۃ کی جاری کردہ ریلیز کے مطابق ملزمین میں عام آدمی پارٹی کے کونسلر طاہر حسین کے بھائی شاہ عالم کے ساتھ راشد سیفی اور شاداب شامل ہیں، عدالت نے انہیں مقدمہ سے بری کرتے ہوئے اپنے فیصلہ میں لکھا ہے کہ ”دہلی پولیس کی ناقص و ناکام تفتیش کی وجہ سے دہلی فساد تاریخ میں یاد رکھا جائے گا، ملزمین پر تعزیرات ہند کی دفعات 147,148,149,436, 427 (فسادات برپا کرنا،گھروں کو نقصان پہنچانا، غیر قانونی طور پر اکھٹا ہونا) اور پی ڈی پی پی ایکٹ کی دفعہ 3,4 کے تحت مقدمہ قائم کیا گیا تھا'۔
ملزمین کو قانونی امداد فراہم کرنے والی تنظیم جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے مقرر کردہ وکیل آن ریکارڈ ظہیر الدین بابر چوہان اور ان کے معاون وکلاء دنیش تیواری وغیرہ نے چارج پر بحث کرتے ہو ئے عدالت کو بتایا تھا کہ دہلی پولیس نے نہایت ناقص تفتیش کی ہے، ملزمین کے خلاف جھوٹے ثبوت و شواہد اکھٹا کیے گئے اور انہیں پھنسایا گیا۔ وکلاء نے عدالت کو مزید بتایا کہ ملزمین کے خلاف صرف پانچ لوگوں نے گواہی دی ہے جس میں چار پولیس والے شامل ہیں جبکہ ایک عام شہری ہے، انہوں نے عدالت کو مزید بتایا کہ دو سو لوگوں کے ہجوم میں سے صرف انہیں تین لوگوں کی نشاندہی کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ملزمین کو منظم طریقے سے مقدمہ میں پھنسایا گیا ہے۔'
حالانکہ سرکاری وکیل نے ملزمین کو مقدمہ سے ڈسچارج کرنے کی سخت مخالفت کی لیکن عدالت نے دفاعی وکلاء کے دلائل سے اتفاق کرتے ہوئے تینوں ملزمین کو دیال پور پولس اسٹیشن مقدمہ (چاند باغ) سے ڈسچارج کردیا اور پولیس کی ناقص تفتیش پر سخت برہمی کااظہاربھی کیا۔ عدالت نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ یہ مقدمہ ٹیکس ادا کرنے والے شہریوں کے پیسوں کی بربادی ہے کیونکہ تفتیش صحیح رخ پر نہیں کی گئی۔ عدالت نے مزید کہاکہ یہ تفتیشی ایجنسی کی ناکامی ہے کہ انہوں نے سائنسی طریقہ کار اختیار نہیں کیا، بس عدالت کی آنکھ پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی۔'