نئی دہلی :اس موقع پر ہفت روزہ ’ گواہ‘ حیدرآبادکے ایڈیٹر ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز نے کہاکہ ہندوستان میں اردو صحافت کا مستقبل ہماری دیانت داری اور محنت پر منحصر ہے۔اردو صحافت خوف کی سایہ میں رہی ہے اور اسی نے اسے تباہ کیا۔ ضرورت ہے کہ ہم خوف سے نکلیں تبھی ہم اس کے مستقبل روشن دیکھ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اردو ایک بڑی آبادی کی زبان ہےاور یہ آبادی جب تک اس زبان کو لکھتی پڑھتی اور بولتی رہےگی اس کی صحافت بھی زندہ رہےگی۔اس کے لئے تمام لوگوں کو مل کر کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔
جدد آئی او ایس سینٹرفار آرٹس اینڈ لٹریچر کی اس مجلس گفتگو میں انہوں نے اپنی عملی زندگی کے تجربات کی روشنی میں کہا کہ اردو میں بھی روزگار اور صحافت کے شعبے میں روزگار کے مواقع بڑھے ہیںانہوں نے کہا کہ ۔حیدرآباد میں اردو کے اخبارات بیرون ملک رہنے والے ہندوستانیوں کے لئے ملک اور معاشرے سے رابطہ کی زبان ہے۔این آرآئی لڑکے لڑکیوں کو رشتوں کی تلاش کے لیے اردو صحافت کا ہی سہارا لینا پڑتا ہے۔اردو کے لیے بیرون ملک مقیم ہندوستانیوں کا جذبہ یہ ہے-
مذاکرے کا آغاز تلاوت قرآن سے ہوا۔اطہر حسین نے تلاوت کے بعد آیات کریمہ کا ترجمہ بھی پیش کیا۔انجم نعیم نے اپنی تعارفی گفتگو میں بتایا کہ مجدد آئی او ایس سینٹر کے قیام کا مقصد ادبی اور ثقافتی موضوعات پر سنجیدہ بحث کو تحریک دینا ہے۔اس مجلس گفتگو کے مہمان خصوصی ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز کو ابھی دو دن قبل پریس کونسل آف انڈیا نے صحافت میں ان کی اعلیٰ کار کردگی کے قومی حسن کارکردگی ایوارڈ سے سرفراز کیا ہے۔ یہ اردو کے پہلے صحافی ہیں جن کو یہ ایوارڈ دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے نوجوانوں کو ان کے تجربات سے تحریک ملےگی جبکہ ڈاکٹر شفیع ایوب نے مذاکرے کی افتتاحی گفتگو میں کہا کہ ہندوستان میں صحافت کی ابتدا 1780 میں ہوئی اور اردو صحافت کا آغاز 1822میں ہوا۔جب سے ہی یہ بحث چل رہی ہے کہ صحافت پیشہ اور کاروبار ہے یامشن اور خدمت ۔ اسی طرح ریڈیو آیا تو کہا گیا کہ پرنٹ میڈیاکا مستقبل ختم ہورہا ہے۔ پھرٹی وی آیا تو کہا گیا کہ اب ریڈیو بھی ختم ہوجائےگا۔ اب لوگ کہہ رہے ہیں کہ صرف ڈیجیٹل میڈیا کا مستقبل ہےلیکن میڈیا کی صنعت کا سب سے بڑا کاروباری مرڈوک کہتا ہے کہ جو مرنے کی خبریں نشر کرتے رہتے ہیںوہ سب مر جائیں گے صحافت زندہ رہےگی جبکہ بحث میں حصہ لیتے ہوئے ڈاکٹر ابرار رحمانی کہا کہ صحافت اخباروں تک محدود نہیں ہے۔اس کی دوسری شکلوں اور شعبوں کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔