داستان مرثیہ کربلا سے کاشی تک دہلی کے انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر میں منعقد نئی دہلی:جشن بہا ٹرسٹ کی بانی کامنا پرساد نے استقبالیہ کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ مرسیہ عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کے معنی میت پر رونا ہے مرسیہ ایسی نظم کو کہتے ہیں جس میں کسی کی وفات پر اس کے اوصاف اور خوبیاں بیان کرتے ہوئے اپنے رنج و غم کا اظہار کیا جائے۔
اس کی شروعات تعزیتی نظموں سے ہوئی اس کے بعد یہ کربلا میں نواسہ رسول امام حسین ان کی رفقا اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کا بیان بن گیا انہوں نے کہا کہ مرسیہ ہماری گنگا جمنی تہذیب کی علامت ہے۔
یہ ایک ایسی صنف ہے جس کے بغیر ہندوستانی ادب کی تاریخ ادھوری ہے جس نے شاعری کے حسن وقار میں پیش بہا اضافہ کیا ہے جس نے ہندوستانیت کا رنگ لیے سانح کربلا کی ایسی ترجمانی کی جو عہد در عہد مقبول ہوئی اور جس نے اپنے وطن کے مختلف فرقوں اور طبقوں کو جوڑنے کا کام کیا ۔
کامنا برسات نے کہا کہ مرسیہ نگاری کے ابتدائی دور سے ہی غیر مسلم شعراء بھی اس سفر میں ساتھ رہے ہمارے ملک میں ایسا ہونا لازم اور واجب تھا، صنف مرسیہ کربلا کو کاشی سے جوڑتی ہے فرات کو گنگا سے جوڑتی ہے انسان کو انسانیت سے جوڑتی ہے دین کو دنیا سے جوڑتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایسا کہا جاتا تھا کہ جس نے مرسیہ نہیں لکھا وہ مکمل شاعر نہیں ہو سکتا رشتوں کی اہمیت سے اراستہ مرسیہ ایک مضمون داستان غم ہے جس کی واقعہ نگاری ہماری ثقافت میں رچی بسی ہے۔مہمان خصوصی مظفر علی نے کہا کہ اج کامنا پرساد نے داستان مرثیہ کربلا سے کاشی تک کے عنوان سے جو محفل اراستہ کی ہے وہ سنگ میل ثابت ہوگی وہ ہمیں ایک مخصوص سمت میں سوچنے کی طرف امادہ کرے گی گداز قلب اور انکھ کے انسو یہ بہت بڑی صفات ہیں یہ صرف محرم اور امام حسین کے ذکر سے ملتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:JMI MBA Student جامعہ کے طالب علم کی اسٹارٹ اپ پروگرام کی چارکروڑ روپے کی اعانت
اسٹیج ارٹسٹ فیروز خان، عینب خضرہ اور پلو مشرا نے داستان مرسیہ کربلا سے کاشی تک پیش کی پروگرام میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی اہم شرکا میں ممبر پارلیمنٹ فاروق عبداللہ سابق چیف انفارمیشن کمشنر اف انڈیا وجاہت حبیب اللہ ریختہ کے بانی سنجیو سراف دہلی اقیلتی کمیشن کے سابق چیئرمین وہ ریٹائرڈ ائی پی ایس قمر احمد زیدی معروف ناظم مشاعرہ اظہر اقبال کے نام قابل ذکر ہیں۔