سپریم کورٹ نے آج آرٹیکل 370 پر جاری سماعت میں یہ تبصرہ کیا کہ ’آرٹیکل 370 میں خود اس شرط کی وضاحت کی گئی جس کے تحت اسے منسوخ کیا جاسکتا ہے اور دفعہ میں فراہم کردہ طریقہ کار سے اسے ختم کیا جاسکتا ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں پانچ ججوں کی آئینی بنچ جس میں جسٹس ایس کے کول، سنجیو کھنہ، بی آر گاوائی اور سوریہ کانت شامل ہیں نے آج بھی آرٹیکل 370 کی منسوخی کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کی، جس کے ذریعہ جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ حاصل تھا۔
اپنے دلائل پیش کرتے ہوئے سبل نے عدالت سے سوال کیاکہ کیا مناسب مشاورت کے بغیر جموں و کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنانے سے پہلے لوگوں کی مرضی کو مدنظر رکھا گیا تھا۔ سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل نے سپریم کورٹ میں آئین کے آرٹیکل 370 کی منسوخی کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر جاری سماعت کے تیسرے دن اس بات پر زور دیا کہ سیاسی فائدے کے لیے آئین کے ساتھ جوڑ توڑ نہیں کیا جاسکتا۔
سبل نے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں پانچ ججوں کی آئینی بنچ سے کہاکہ ’ہم ایک ایسی صورتحال میں کھڑے ہیں، جب کہ آئین ایک سیاسی دستاویز ہے، لیکن اس کی دفعات کو سیاسی مقاصد کے لیے نہیں توڑا جاسکتا۔ آئین کی تشریح کریں، یہ ایک سیاسی دستاویز ہے، لیکن آپ اس کا سیاسی طور پر غلط استعمال کر سکتے ہیں۔"
تیسرے دن کی بحث کے دوران سبل نے شیخ محمد عبداللہ کی ایک تقریر کا حوالہ دیا، جو ریاست جموں و کشمیر کے پہلے منتخب وزیر اعلیٰ تھے۔ چیف جسٹس چندر چوڑ نے 1951 میں شیخ محمد عبداللہ کے وژن کو تسلیم کیا اور ستائش کی۔ سبل اس کیس میں نیشنل کانفرنس کے ایم پی محمد اکبر لون اور حسنین مسعودی کی نمائندگی کررہے ہیں۔ انہوں نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہاکہ ’ایک یکطرفہ ایگزیکٹو فیصلہ آئینی طور پر آرٹیکل 370 میں شامل شرائط کو تبدیل نہیں کرسکتا۔ بھارتی یونین کا ایک ایگزیکٹو ایکٹ یکطرفہ طور پر بھارت کے آئین کی دفعات کو تبدیل نہیں کر سکتا جیسا کہ ریاست جموں و کشمیر پر لاگو ہوتا ہے۔ بالآخر، یہ ایک سیاسی فیصلہ تھا جو موجودہ حالات کے تناظر میں لیا گیا تھا، کیا یہ ٹھیک ہے‘؟ انہوں نے کہا کہ ’یہ آئین کے ساتھ دھوکہ ہے‘۔