ظفراسلام خان جو کہ ایک معروف سماجی کارکن اور انتہائی تعلیم یافتہ مسلم رہنما بھی ہیں۔ ان کے خلاف ملک سےغداری جیسے سنگین الزامات کے تحت ایف آئی آر درج کرنے کے خلاف سول سوسائٹی سراپا احتجاج بن گئی ہے۔
ملک کی دو درجن سے زائد اہم سماجی شخصیات نے ایک مشترکہ بیان جاری کرکے ظفر الاسلام خان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی کوشش کی شدید مذمت کی۔
انہوں نے ظفر الاسلام کے ساتھ اظہار یکجہتی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ان کی ایک فیس بک پوسٹ جس میں انہوں نے بھارتی مسلمانوں کے ساتھ کھڑا ہونے پر کویت کا شکریہ ادا کیا تھا، اس کی بنیاد پر ان کے خلاف میڈیا ٹرائل قابل مذمت ہے۔
ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے مسلمانوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور ہندوتوا شرپسندوں کے ذریعہ مسلمانوں کو ہراساں کرنے کا ذکر کیا تھا۔چند سیاستدانوں اور میڈیا اینکرس جو اپنے اسلاموفوبیا اور بدنیتی کے لیے مشہور ہیں، نے ان کے اس بیان کو غلط طریقہ سے پیش کیا اور ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کو ہندو مخالف اور ملک مخالف تک قرار دے دیا۔
حالانکہ ظفر الاسلام خان نے وہی کہا جو دیگر بھارتی شہریوں، اہم شخصیات اور بین الاقوامی اداروں سمیت یورپی حکومتیں کہہ چکی ہیں۔ حال ہی میں امریکی کمیشن برائے مذہبی آزادی نے بھی بھارت میں اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی کا حوالہ دیا ہے۔
سول سوسائٹی نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ڈاکٹر ظفر الاسلام خان ایک باعزت شخص ہیں، وہ ایک ایسے اسکالر ہیں جو آئینی آزادی اور اقدار کے لیے کھڑے ہوتے ہیں۔ دہلی مائناریٹی کمیشن کے سربراہ کے طور پر ان کے کاموں کو انسانی حقوق کی تنظیموں اور کارکنوں نے سراہا ہے ان کی متعدد کاروائی سے دہلی کی اقلیتیں جیسے مسلم، سکھ، عیسائی، جین اور پارسی افراد کو راحت ملی ہے۔