دارالحکومت دہلی میں جمعیة علماء ہند کے جنرل سیکریٹری مولانا محمود مدنی نے لوک سبھا میں شہریت ترمیمی بل 2019 کی منظوری کے بعد تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ آئین ہند کی روح کے خلاف ہے۔
شہریت ایکٹ 1955 میں زیر بحث ترمیم، دستور ہند کی بنیادی دفعات 14، 15 کے منافی ہے جو بالترتیب قانون کی نگاہ میں یکسانیت اور مذہب، ذات پات اور نسل کی بنیاد پر تفریق کی اجازت نہیں دیتا۔
جمعیة علما ہند اس ترمیم کو آئین ہند کے معارض تصور کرتے ہوئے اس بات کی توقع رکھتی ہے کہ راجیہ سبھا میں اس کوضروری حمایت حاصل نہ ہو گی اور وہ اپنے انجام کو نہیں پہنچے گی۔
جمعیة علما ہند، وطن عزیز، کے اس دستور اور روایات کی پاسداری کی علم بردار سبھی پارٹیوں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ پوری قوت سے اس کے خلاف اپنا حق استعمال کریں۔
واضح رہے کہ لوک سبھا میں شہریت ترمیمی بل کو بالآخر منظور کرلیا گیا، جبکہ اس بل کی تائید میں 311 اور مخالفت میں 80 ووٹ ڈالے گئے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل وزیر داخلہ امت شاہ نے شہری ترمیمی بل کو لوک سبھا میں پیش کیا تھا، جس پر ایوان میں گرما گرم مباحث ہوئے جس میں تقریباً 48 ارکان نے حصہ لیا۔
اس متنازعہ بل کو پیش کرنے کے لیے لوک سبھا میں ووٹنگ کی گئی بل کی تائید میں 293 اور مخالفت میں 82 ووٹ ڈالے گئے، جس کے بعد بل کو وزیر داخلہ امت شاہ نے لوک سبھا میں پیش کیا۔
اس متنازعہ بل کو پیش کرنے کے لیے لوک سبھا میں ووٹنگ کی گئی بل کی تائید میں 293 اور مخالفت میں 82 ووٹ ڈالے گئے، جس کے بعد بل کو وزیر داخلہ امت شاہ نے لوک سبھا میں پیش کیا۔ شہریت ترمیمی بل پر لوک سبھا میں بحث کے بعد اس بل کی مخالفت میں حیدرآباد کے رکن پارلیمان اورآل انڈیا مسلم اتحادالمسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے سربراہ اسدالدین اویسی نے ایوان میں تقریر کی اور تقریر کے آخر میں بل کی کاپی کو پھاڑ کر بل کے خلاف اپنی شدید برہمی ظاہر کیا۔
انہوں نے کہا کہ آئین کی تدوین کے وقت راجندر پرساد نے آئین کی کتاب کے آغاز اور بھگوان اور خدا کے لفظ کو رکھنے کی مخالفت کی تھی، یہ اس لیے کیونکہ بھارت کے آئین کو مذہب سے دور رکھا جائے۔
اسدالدین اویسی نے کہا کہ مذہب کی بنیاد پر بل کو بنایا گیا ہے جس کی وجہ سے وہ اس بل کی مخالفت کرتے ہیں۔
انہوں نے مرکزی حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے سوال کیا کہ آخر حکومت کو اسلام اور مسلمانوں سے اتنی نفرت کیوں ہے؟
انہوں نے کہا کہ اس بل کو این آر سی کے نظریہ سے دیکھنے کے ضرورت ہے کیونکہ بل کے پاس ہونے کے بعد آسام میں جن 19 لاکھ افراد کے نام نہیں آئے ہیں ان میں 5 لاکھ 40 ہزار ہندو ہیں ان کو شہریت مل جائے گی اور جو باقی مسلمان ہیں انہیں ڈٹینشن سینٹرم میں ڈال دیا جائے گا۔
شہریت ترمیمی بل پر لوک سبھا میں بحث کے بعد اس بل کی مخالفت میں حیدرآباد کے رکن پارلیمان اورآل انڈیا مسلم اتحادالمسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے سربراہ اسدالدین اویسی نے ایوان میں تقریر کی اور تقریر کے آخر میں بل کی کاپی کو پھاڑ کر بل کے خلاف اپنی شدید برہمی ظاہر کیا۔ حیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ بل کے نفاذ کے بعد آرٹیکل 14 ناکام ہوجائے گا اور مسلمانوں کو اسٹیٹ لیس کردیا جائے گا۔
انہوں نے ٹائیگر صدیقی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ٹائیگر صدیقی کی وجہ سے ہم پاکستان کو دو ٹکڑوں میں باٹنے میں کامیاب ہوئے تھے جبکہ انہیں بھارت نے شہریت دی تھی۔
انہوں نے حکومت سے سوال کیا کہ بل کے تحت کتنے لوگوں کو شہریت دی جائے گی۔
اسدالدین اویسی نے بل کو بٹوارہ کے مماثل قرار دیتے ہوئے اسے ہٹلر کے قانون سے بھی بدتر بتایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو اس بل میں شامل نہیں کیا گیا کیونکہ وہ اسلام کے ماننے والے ہیں۔
اپنی تقریر کے آخر میں اسدالدین اویسی نے شدت سے مخالفت کرتے ہوئے اس بل کو پھاڑ دیا اور کہا کہ جنوبی افریقہ کے نیشنل رشین کارڈ کو گاندھی جی نے پھاڑ دیا تھا جس کے بعد انہیں مہاتما کے خطاب سے نوازا گیا تھا۔