نئی دہلی: ہاؤسنگ اور شہری امور کی وزارت نے دہلی میں 123 جائیدادوں کے باہر نوٹس چسپاں کیا ہے جن میں مساجد، درگاہیں اور قبرستان شامل ہیں، انہیں دہلی وقف بورڈ کی جائیدادوں کے طور پر ظاہر کیا گیا ہے۔ یہ 123 جائیدادیں دہلی وقف بورڈ کو گذشتہ کانگریس حکومت نے 2014 کے لوک سبھا انتخابات سے پہلے فراہم کی تھیں۔ تاہم اس کے بعد وشو ہندو پریشد نے اعتراض جتاتے ہوئے عدالت سے رجوع کیا، کیونکہ یہ جائیدادیں قومی دارالحکومت میں نمایاں جگہوں پر تھیں۔
اس کے بعد جب یہ معاملہ عدالت پہنچا تو دو کمیٹیاں تمام متاثرہ اسٹیک ہولڈرز کی سماعت کے لیے بنائی گئی تھیں، جس میں جسٹس ایس پی گرگ، سابق جج، دہلی ہائی کورٹ اور رادھا چرم (ایس ڈی ایم ریٹائرڈ) کو رپورٹ پیش کرنی تھی۔ نوٹس کے مطابق، دو رکنی کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ دہلی وقف بورڈ اہم اسٹیک ہولڈر تھا جسے کمیٹی نے حوالہ کی شرائط کے مطابق موقع دیا تھا، تاہم بورڈ نے عدالت میں پیش نہ ہونے کا انتخاب کیا۔
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ دہلی وقف بورڈ نے مقررہ وقت کے اندر دو رکنی کمیٹی کے ذریعہ جاری کردہ پبلک نوٹس پر کوئی اعتراض درج نہیں کیا۔ بورڈ کو ایک اور موقع بھی دیا گیا کہ وہ 123 جائیدادوں کو وقف املاک کے طور پر اپنے دعوے کی حمایت میں اپنا مقدمہ پیش کریں۔ کمیٹی نے بعد میں اپنا نقطہ نظر پیش کیا کہ بورڈ نہ تو ان جائیدادوں میں دلچسپی رکھتا ہے اور نہ ہی کوئی اعتراض درج کر رہا ہے اس لئے دہلی وقف بورڈ کو 123 وقف جائیدادوں سے متعلق تمام معاملات سے بری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔