سسودیا نے جمعہ کو ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ مرکزی حکومت نے ماضی میں لیفٹیننٹ گورنر کے ذریعہ دہلی حکومت کے ذریعے طے شدہ وکلاء کے پینل کو مسترد کرنے کی کوشش کی ہے لیکن دہلی کابینہ نے آج فیصلہ کیا ہے کہ عدالت میں دہلی حکومت کے ذریعہ منتخب کردہ وکیلوں کا پینل ہی اپنی بات رکھے گا۔
نائب وزیراعلی نے کہا کہ یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ مرکزی حکومت مسلسل لیفٹیننٹ گورنر کے ذریعہ عوام کے ذریعہ منتخب کردہ دہلی حکومت کے کاموں میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وکلا کی تقرری اس کا حصہ ہے اور ریاستی حکومت کو اس پر فیصلہ کرنے کا حق ہے۔
اس کے باوجود اس میں لیفٹیننٹ گورنر کی طرف سے مسلسل مداخلت کرنا آئین کے مخالف ہے۔
ہندوستانی آئین میں مرکزی حکومت دہلی حکومت اور لیفٹیننٹ گورنر کے فرائض کی اچھی طرح سے تعریف کی گئی ہے۔
نیز 4 جولائی 2018 کو سپریم کورٹ کے پانچ سینئر ترین ججوں کے آئینی بنچ نے اپنے فیصلے میں دہلی حکومت کو ٹرانسفر سبجیکٹ پر فیصلہ لینے کا حق دیا تھا۔
لیفٹیننٹ گورنر کو حکومت کے فیصلے میں اپنی رائے دینے کے لئے ویٹو پاور دیا گیا ہے۔ لیکن آئینی بنچ نے تشریح کی تھی کہ لیفٹیننٹ گورنر صرف نہایت ہی نایاب حالات میں ہی اپنے ویٹو کا استعمال کرسکتے ہیں۔
نائب وزیراعلی نےبتایاکہ آئینی بنچ کے فیصلے کے خلاف جاتے ہوئے لیفٹیننٹ گورنر عوام کی منتخب حکومت کو عوامی مفاد کے کاموں سے روکنے کے لئے ہر روز اپنے ویٹو کا غلط استعمال کر رہے ہیں اور یوں جمہوریت کا قتل کیا جا رہا ہے۔
یواین آئی۔