9 مارچ، 2020 کو دہلی اقلیتی کمیشن نے ایم آر شمشاد، ایڈوکیٹ آن ریکارڈ، سپریم کورٹ آف انڈیا،کی سربراہی میں ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دی تھی جس کے تحت کمیٹی کو 23 سے 27فروری 2020 کے دوران شمالی مشرقی دہلی کے مختلف علاقوں میں ہونے والے تشدد کی تحقیق کرنے کی ذمے داری دی گئی تھی۔
کمیٹی نے اپنا کام شروع ہی کیا تھا کہ کووڈ 19 لاک ڈاؤن نے اس کے کام کو شدید متاثر کیا۔ پھرکمیٹی نے جون 2020 میں لاک ڈاؤن میں تخفیف کے بعداپنا کام دوبارہ شروع کیا۔
کمیٹی نے تشدد متاثرین کو معلومات دینے کی دعوت دی اور شمال مشرقی دہلی کے مختلف مقامات پر متاثرہ گواہوں سے بیانات اور دستاویزات حاصل کیے اور مذہبی مقامات کو ہونے والے نقصانات کا موقع پر سروے کیا۔ کمیٹی اور دہلی اقلیتی کمیشن دونوں نے دہلی پولیس سے ایف آئی آرز کی کاپیاں اور گرفتاریوں وغیرہ کے بارے میں معلومات طلب کیں لیکن پولیس نے کسی کو بھی کوئی جواب نہیں دیا۔ مجموعی صورتحال پر غور کرتے ہوئے کمیشن نے کمیٹی کی میعاد 30 جون 2020 تک بڑھا دی۔
کمیٹی نے 27 جون 2020 کو اپنی 130 صفحات پر مشتمل رپورٹ کمیشن کو پیش کردی۔ کمیشن نے رپورٹ پر غور کیا اور اسے قبول کرلیا۔ کمیشن کی جانب سے یہ رپورٹ لیفٹیننٹ گورنر دہلی اور وزیر اعلی دہلی کو مزید کارروائی کی درخواست کے ساتھ تین روز قبل پیش کر دی ہے۔ دہلی کے تمام وزراء اور اسپیکر دہلی قانون ساز اسمبلی کو بھی اس رپورٹ کی کاپی پیش کر دی گئی ہے۔
رپورٹ کی کاپی یہاں آن لائن بھی دستیاب ہے:
https://archive.org/details/DMC-delhi-riots-fact-finding-2020
رپورٹ کے اہم نتائج اور سفارشات درج ذیل ہیں:
1: تشدد پرمسلسل اکسانا
دسمبر 2019 سے فروری 2020 تک دہلی کے اسمبلی انتخابات کی مہم کے دوران بی جے پی رہنماؤں نے سی اے اے مخالف مظاہرین کے خلاف لوگوں کو تشدد پر اکسانے کے لیے متعدد تقاریر کیں۔ رپورٹ میں ان تقاریر کی تفصیلات ریکارڈ کی گئیں ہیں۔
23 فروری 2020 کو موج پور میں کپل مشرا کی اشتعال انگیز تقریر کے فورا بعد شمال مشرقی دہلی کے مختلف علاقوں میں تشدد بھڑک اٹھا۔ اس تقریر میں انہوں نے شمال مشرقی دہلی کے جعفر آباد علاقے میں مظاہرین کو زبردستی ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔ مظاہرین اور عوام کو یہ دھمکیاں اس وقت کے ڈپٹی کمشنر پولیس نارتھ ایسٹ شری وید پرکاش سوریہ کی موجودگی میں دی گئی تھیں۔
2: منصوبہ بند، منظم اور نشانہ بند تشدد
مسلح ہجوم شمالی مشرقی دہلی کے مختلف علاقوں میں گیا، افراد پر حملہ کیا، املاک اور کاروبار کو لوٹا اور جلایا۔ ہجوم نے'جے شری رام'، 'ہر ہر مودی'، 'مودی جی، کاٹ دو ان ملوں کو'، 'آج تمھیں آزادی دیں گے' وغیرہ جیسے نعرے لگاتے ہوئے مسلم افراد، گھروں، دکانوں، گاڑیوں اور مساجد وغیرہ املاک پر چن چن کر حملہ کیا۔
گواہوں نے بتایا کہ ہجوم میں بڑی تعداد میں بیرونی افراد شامل تھے لیکن ان میں کچھ مقامی افراد بھی شامل تھے جن کو متاثرین پہچان سکتے ہیں۔ ہجوم لاٹھیوں، لوہے کی سلاخوں، آنسو گیس کے گولوں، گیس سلنڈروں اور آتشیں اسلحوں سے لیس تھے۔
شمال مشرقی دہلی کے متعدد علاقوں میں، مسلمانوں کی املاک کو لوٹ لیا گیا، جلایا گیا اور مکمل طور پر تباہ کردیا گیا۔ حملیاس حد تک منصوبہ بند تھے کہ ان جہاں مالکان ہندو تھے لیکن جائیدادیں مسلمانوں کو کرایے پر دی گئیں تھیں، ان عمارتوں کو بچالیا گیا لیکن غیر منقولہ املاک کو لوٹ لیا گیا یا احاطے کے باہر لا کرجلا دیا گیا۔متاثرین کی ہلاکتوں سے پتا چلتا ہے کہ یہ تشدد کسی 'فساد' کی طرح بے ساختہ نہیں تھا بلکہ وہ منصوبہ بند، منظم اور نشانہ بند تھا۔
3: مذہبی مقامات کو نشانہ بنانا
اس رپورٹ میں 11 مساجد، پانچ مدرسوں، ایک درگاہ اور ایک قبرستان کی تفصیلات دی گئی ہیں جن پر تشدد کے دوران حملہ ہوا تھا اور جن کو نقصان پہنچا یا گیاتھا۔ حملہ آوروں نے خاص طور پر مسلم عبادت گاہوں اوراسکولوں یعنی مساجد اور مدرسوں کے ساتھ قرآن مجید کی کاپیوں جیسی مذہبی علامتوں کو توڑ ڈالا اور جلادیا۔ فسادات کے دوران مسلم پڑوسیوں نے مسلم اکثریتی علاقوں میں غیر مسلم عبادت گاہوں کی حفاظت کی۔ بڑی تعداد میں علاقے کے مسلمان بے گھر ہوگئے ہیں۔ کووڈ۔19 لاک ڈاؤن کی وجہ سے متاثرین ان امدادی کیمپوں سے بھی نکال دیے گئے جہاں ان بے گھر افراد نے پناہ لی تھی۔
پولیس کا کردار
تحقیقاتی کمیٹی کے ذریعہ جمع کردہ متعدد ہلاکتیں تشدد کے دوران پولیس کی بے عملی کی گواہی دیتی ہیں حالانکہ ان کے سامنے تشدد پھیل رہا تھا۔ نیز ایمرجنسی کال نمبر پر بار بار فون کرنے کے باوجود پولیس موقع پر نہیں پہنچی۔ ہلاکتیں یہ بھی بتاتی ہیں کہ کس طرح پولیس علاقے میں گشت کررہی تھی لیکن جب مدد طلب کی گئی تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ ان کو کسی کام کا آرڈر نہیں ملا ہے۔ پولیس نے غیرقانونی جماو?ڑوں کو منتشر کرنے، یا تشدد کرنے والے افراد کو گرفتار کرنے اور ان کو نظربند کرنے کے اقدامات کرنے کے اختیار کوبھی استعمال نہیں کیا۔
تشدد کا نشانہ بننے والوں کی متعدد ہلاکتوں سے واضح ہوتا ہے کہ ایف آئی آر درج کرنے میں یا توتاخیر ہوئی ہے یا ان پر کارروائی نہیں کی گئی ہے۔ مزید یہ کہ شکایات کی سنگین نوعیت کے باوجود پولیس نے درج کی گئی ایف آئی آر پر عمل نہیں کیا۔ کچھ معاملات میں پولیس اس وقت تک ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کرتی رہی جب تک کہ شکایت کنندہ نے نامزد ملزمین کے نام اپنی شکایت سینہیں خارج کردیئے۔ کچھ معاملات میں شکایات کو پہلے ہی درج کی گئی ایف آئی آرز میں غلط طور پر نتھی کردیا گیا۔
ہلاکتیں یہ بھی بتاتی ہیں کہ کچھ معاملات میں پولیس ملوث تھی اور اس نے حملوں کو ہونے دیا۔ جہاں کچھ پولیس عہدیداروں نے ہجوم کو منتشر کرنے کی کوشش بھی کی وہاں متاثرین کے مطابق پولیس افسروں نے اپنے ساتھیوں کو روک دیا اور بھیڑ کو منتشر کرنے کی کوشش کرنے والے پولیس والوں سے کہا کہ 'انہیں مت روکو'۔ کچھ معاملات میں، پولیس محض تماشائی بن کر کھڑی رہی جبکہ ہجوم لوٹ مار، جلانے اور تشدد میں مصروف تھا۔ کچھ دوسرے معاملات میں پولیس نے واضح طور پر مجرموں کو یہ کہتے ہوئے بڑھاوا دیا کہ 'جو چاہے کرلو'۔ کچھ ہلاکتوں میں بتایا گیا ہے کہ پولیس اور نیم فوجی افسران نے حملہ ختم ہونے کے بعد مجرموں کو بحفاظت علاقے سے باہر منتقل کیا جبکہ کچھ معاملات میں، پولیس نے متاثرین کو بھی بحفاظت باہرنکالا۔
کچھ ہلاکتوں میں، پولیس افسران کے خلاف جسمانی زیادتی اور بدسلوکی سمیت براہ راست تشدد میں ملوث ہونے کے واضح الزامات لگائے گئے ہیں اور کچھ معاملات میں شکایت کرنے والے متاثرین کو ہی گرفتار کرلیا گیا ہے، خاص طور پر ان حالات میں جہاں انہوں نے نامزد افراد کے خلاف شکایت درج کروائی یا اس کی کوشش کی۔ نامزد ملزمین کے خلاف شکایات کی مناسب تحقیقات کے بغیر چارج شیٹ داخل کرنے سے جہاں تفتیش کی غیر جانبداری اور مقصدیت کے بارے میں شبہہ پیدا ہوتی ہے وہیں دہلی پولیس کے ذریعے مجموعی طور سے تشدد کے بارے میں ایک نیا بیانیہ پیش کرنے کی کوشش کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔
5. خواتین پر اثر
ہلاکتیں بتاتی ہیں کہ مسلم خواتین پر ان کی مذہبی شناخت کی بنا پر حملہ کیا گیا تھا۔ ان کے حجاب اور برقعے اتار دیئے گئے تھے۔ خواتین کے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ پولیس فورسز اور پرتشدد ہجوم نے احتجاجی مقامات پر حملہ کیا، خواتین پولیس اہلکاروں نے ان کے ساتھ مار پیٹ کی اور ہجوم کے ذریعے ان پر حملہ ہوا۔ خواتین نے بھیڑ کے ذریعے تیزابی حملوں اور جنسی تشدد کی دھمکیوں کی مثالیں بھی بیان کیں۔