Jamia Violence Case جامعہ تشدد کے ملزم آصف اقبال تنہا سے ساکیت کورٹ کے فیصلے پر بات جیت - دہلی ہائی کورٹ نےآصف اقبال تنہا کو ضمانت دی
ہآصف اقبال تنہا نے کہا کہ ساکیت کورٹ نے تمام پہلوؤں کو سننے کے بعد عدالت نے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ جو الزامات ان 13 لوگوں پر لگائے گئے ہیں ان پر کوئی بھی ایسا ثبوت نہیں ہے جس سے یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ یہ ملزمان مجرم ہیں۔ عدالت نے مزید کہا کہ احتجاج کرنے کا حق ان طلبا کو بھارت کے آئین نے دیا ہے ایسے میں یہ کوئی جرم نہیں ہے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں 13 دسمبر 2019 میں ہوئے تشدد پر ساکیت کورٹ نے آج اپنا فیصلہ سنایا ہے جس میں عدالت نے تمام 13 ملزمان کو بری کردیا ہے اس معاملے میں شرجیل امام آصف اقبال تنہا جیسے 13 لوگوں کے خلاف معاملہ درج کیا گیا تھا۔
اس پورے معاملے میں ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے جامعہ تشدد معاملہ میں ملزم آصف اقبال تنہا سے بات کی،اس بات چیت میں انہوں نے بتایا کہ تین سالوں کے بعد ہمیں انصاف ملا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 13 دسمبر کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلباء شہریت ترمیمی قانون کے خلاف پر امن احتجاج کر رہے تھے اسی دوران دہلی پولیس نے احتجاجی مظاہرہ کو ختم کرنے کے لیے طلباء پر پانی کی بوچھار کی ان پر لاٹھی چارج کیا اور اس کے بعد پولیس نے ایف آئی آر درج کی۔
آصف اقبال تنہا نے مزید کہا کہ ہمارے معاملے پر ساکیت کورٹ نے تمام پہلوؤں کو سننے کے بعد عدالت نے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ جو الزامات ان 13 لوگوں پر لگائے گئے ہیں ان پر کوئی بھی ایسا ثبوت نہیں ہے جس سے یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ یہ ملزمان مجرم ہیں۔ عدالت نے مزید کہا کہ احتجاج کرنے کا حق ان طلبا کو بھارت کے آئین نے دیا ہے ایسے میں یہ کوئی جرم نہیں ہے۔
آصف اقبال تنہا نے بتایا کہ 13 دسمبر 2019 میں طلبہ نے احتجاج کے دوران جامعہ کے طلبا نے بس کو آگ نہیں لگایا تھا بلکہ جو بس نذرآتش ہوئی تھی وہ دراصل نیو فرینڈز کالونی علاقہ میں تھی حالانکہ پولیس نے یہ الزام ان 13 ملزمان کے خلاف لگایا تھا۔
آصف اقبال تنہا نے بتایا کہ دہلی پولس نے جامعہ احتجاج کے دوران 42 طلباء کوگرفتار کیا تھا لیکن پولیس نے ان کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں کیا گیا بلکہ ان لوگوں کو نشانہ بنایا جو شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج میں پیش پیش تھے۔
مزید پڑھیں:جامعہ تشدد معاملہ میں طالب علم کو ملی ضمانت 2019 jamia violence