نئی دہلی میں ایشیاء کا سب سے بڑا پیکیجنگ ویسٹ مینجمنٹ وینچر متعارف کرایا گیا ہے اور ملک بھر میں 125 مادی بحالی کی سہولیات کا ایک نیٹ ورک بنانے کا منصوبہ، جو اگلے 3 سالوں میں 2500 سے زیادہ صنعت کاروں کے ساتھ کام کرے گا۔
اس سے اس بات کو یقینی بنایا جا سکے گا کہ 2025 تک قابل تجدید مواد فضلہ بھرنے والے علاقے میں نہیں جائے گا۔
بھارت میں پلاسٹک کے فضلہ کے بارے میں بڑھتی ہوئی تشویش اور تحفظات کو دور کرنے کے لئے، اس صنعت کی 31 سر فہرست کمپنیوں نے مل کر ایشیاء کا اپنی نوعیت کا سب سے بڑا منصوبہ شروع کیا ہے۔ مینوفیکچررز کی زیر قیادت اور ان کی ملکیت میں بننے والا یہ وینچر منصوبہ ملک میں عام پلاسٹک سرکلر معیشت کو ترقی دینے کے لئے کیا جارہا ہے۔ حصہ لینے والی یہ کمپنیاں اثاثوں، وسائل کو مستحکم اور اکٹھا کرکے انہیں تبدیل کریں گی اور 1000 کروڑ روپے سے زیادہ کی سرمایہ کاری کریں گی۔
احمد الشیخ، صدر پیپسیکو انڈیا، ٹی کرشن کمار، صدر کوکا کولا انڈیا اور جنوبی مغربی ایشیاء اور انجیلو جارج، سی ای او بیسلیری نے مل کر پرڈیوس قیادت والا وینچرڈ و پیسیبل کلوزنگ میٹریل لوپس لانچ کیا ہے۔ انہوں نے صارفین کے استعمال کے بعد پیکیجنگ کے جمع کرنے کے لئے ایک موثر ربط پیدا کرنے کے لئے یہ منصوبہ شروع کیا ہے۔
اس موقع پر صدر ’پیس' ویمل کیڈیا نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "اس انوکھے منصوبے کا ہدف مختلف قسم کے پیکیجنگ میٹریل کے لئے مادی لوپ کو بند کرنا اور یہ ایک ساتھ مل کر ہندوستان میں 60 فیصد ویلیو چینج لےکر آئے گا۔
ایشیاء کا سب سے بڑا پیکیجنگ ویسٹ مینجمنٹ وینچر متعارف - ٹی کرشن کمار، صدر کوکا کولا انڈیا
اس کا مقصد ہے کہ 2025 تک تمام پیکیجنگ مواد کو ری سائیکلنگ کے مشترکہ ہدف کے لئے 1000 کروڑ روپے سے زیادہ کے وسائل اور اثاثوں کو متحرک کرنا ہے۔
بھارت میں یو این آئی ڈی او کے نمائندے رینی وین برکیل نے کہا کہ 'پلاسٹک اور پیکیجنگ کا فضلہ ہندوستان اور پوری دنیا میں سب سے بڑا اور تیز تر بڑھ رہا مسئلہ ہے۔ انڈسٹری کے زیر قیادت منصوبے کے لئے پی اے سی ای کی پلاسٹک ویسٹ ری سائیکلنگ کا اقدام وقت سازگار اور خوش آئند ہے۔ اس کے لئے یو این آئی ڈی او شراکت کے لئے تیار ہے۔'
اس منصوبے کے تحت ملک بھر میں 125 مادی بحالی کی سہولیات کا ایک نیٹ ورک بنانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے جو اگلے 3 سالوں میں 2500 اجتماعی کمپنیوں کے ساتھ کام کرے گا۔ مختلف مراحل میں اس منصوبے کی سطح کو بلند کیا جائے گا اور مندرجہ ذیل پہلوؤں پر توجہ دی جائے گی۔