نئی دہلی:اردو اکادمی دہلی کی جانب سے اکادمی کے قمر رئیس سلور جبلی آڈیٹوریم، میں سالانہ جلسہ تقسیم انعامات برائے کتب 20۔2019 کی پروقار تقریب کا انعقاد عمل میں آیا۔ جس میں منتخب کتابوں کے مصنفین کو انعامات تقسیم کیے گئے۔ تقریب میں بحیثیت مہمان خصوصی دور درشن نیوز چینل کے سابق ڈائریکٹر جنرل ایس ایم خان نے شرکت کی۔ ایس ایم خان نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت ہی اہم تقریب ہے کیونکہ کتابوں کی بہت اہم اہمیت وحیثیت ہے۔ کتابوں کے بغیر کوئی بھی زبان زیادہ عرصے تک زندہ نہیں رہ سکتی ہے۔ اردو بولنے اور اردو پڑھنے والوں کے لیے یہ پروقار تقریب قابل ستائش ہے۔ اردو اکادمی کی کارکردگی کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اردو قارئین کا اہم مسئلہ ہے۔ اردو اکادمی کو اردو کی ریڈرشپ اور مارکیٹنگ پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔کیونکہ جو لوگ پڑھنا چاہتے ہیں ان قارئین تک کتابیں پہنچ بھی نہیں پاتی ہیں۔
اردو اکادمی دہلی کا سالانہ جلسۂ تقسیم انعامات میں شرکاء یہ بھی پڑھیں:
انہوں نے سابق صدر جمہوریہ اے پی جے عبدالکلام کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ کتابیں خرید کر پڑھا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ مفت میں ملنے والی کتابیں پڑھی نہیں جاتی ہیں، لہٰذا ہمیں چاہیے کہ کتابیں خریدی جائیں اور پڑھی جائیں۔ پروگرام کی صدارت اردو اکادمی دہلی کے وائس چیئرمین حاجی تاج محمد نے کی۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ میں وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال اور نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا کا شکریہ ادا کرتا ہوں کیوں کہ ان کی کاوشوں کے نتیجے میں ہی اس پروقار تقریب کا انعقاد ممکن ہوسکا۔ اردو اکادمی دہلی کے سکریٹری محمد احسن عابد نے کہا کہ آپ لوگ واقف ہیں کہ اردو اکادمی دہلی اچھی کتابوں پر انعامات دیتی ہے، اسی ضمن میں اس پروقار تقریب کا انعقاد کیا گیا ہے۔ ایس ایم خان کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے، آپ کی شفقت ہمیں ہمیشہ حاصل رہی ہے۔ انھوں نے انعامات کی تفصیل کا ذکر کیا اور بتایا کہ اکادمی کے یہ انعامات تین زمروں میں دیے جاتے ہیں اول، دوم اور سوم۔ اس سال 7 کتابوں کو پہلا انعام اور 14 کتابوں کو دوسرا انعام اور 11 کتابوں کو تیسرا انعام پیش کیا گیا ہے۔
جلسہ میں جن مصنفین کو ان کی منتخب کتابوں پر نقد انعامات، اکادمی کا نشان اور سرٹیفکیٹ تقسیم کیے گئے، ان میں’وقارِ افکار، وقار مانوی،’ شعر ونثر کی جمالیات‘، ڈاکٹر تابش مہدی،’سفینۂ افکار‘، ڈاکٹر ابرار رحمانی، ’سیرِ ملکِ اودھ‘ ڈاکٹر مظہر احمد،’ مرگِ انبوہ‘، مشرف عالم ذوقی (مرحوم)۔ ’انتسام ادب‘ڈاکٹر سید کلیم اصغر، ’مقدماتی ادب‘ڈاکٹر خالد مبشر، ’محشرِخیال‘ ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی (مرحوم)، ’کمائی میری‘ طالب رامپوری، ’اردو شاعری‘ پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین، ’اردو نشریات مسائل اور امکانات‘ ڈاکٹر محمد شکیل اختر، ’مرزا سلامت علی دبیر‘ ڈاکٹر سید رضا حیدر (مرحوم)، ’شمیمۃ الوردہ (قصیدہ بردہ)‘ محمد ذکیر الدین ذکی، ’اصطلاحاتِ تصوف اور فارسی ادب‘، چودھری سلطان الدین، ’مفید کیڑوں کی دنیا‘ ڈاکٹر ایم رحمت اللہ، شامل ہیں۔
علاوہ ازیں ’ہندوستان کا تہذیبی اور ثقافتی منظرنامہ‘ ڈاکٹر شاہد اختر انصاری، ’صریر خامہ‘ ڈاکٹر سلمان فیصل، ’خواتین افسانہ نگار (ابتدا سے 1947 تک) ‘عمران عاکف خان، ’اختر انصاری کی غزل تنقید: ایک مطالعہ‘ محمد ریحان، ’ڈاکٹر نگہت نسیم کی افسانہ نگاری‘ مہوش نور،’ ندا فاضلی: حیات و جہات‘محمد یوسف رضا، ’عوامی ترسیل: اصول و نظریات‘ ڈاکٹر احمد خاں، ’کاوش‘ ڈاکٹر مہتاب جہاں، ’قوس وقزح‘ سید ساجد علی ٹونکی، ’دلی جو ایک شہر ہے‘ ظفر انور،’کشمکش‘ محب اللہ قاسمی،’اردو میں مستعمل ضرب الامثال‘ ڈاکٹر عبدالناصر، ’یہ دنیا رنگ برنگی‘معصوم زہرا، ’عکسِ دل‘ صبا عزیز، ’تعلیم کے بغیر زندگی ادھوری‘زیبا خواجہ، ’بند دریچے‘ سائرہ عظیم، ’کھیل کھیل میں‘ثنا اسد اور ’’منشی نول کشور انعام برائے بہترین ناشر‘‘ کے لیے ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی کے نام شامل ہیں۔