دہلی:آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے سُپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کر کے عبادت گاہوں سے متعلق 1991 کے قانون کو چیلنج کرنے والی پی آئی ایل کی مخالفت کی ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے ایک پریس میں کہا ہے کہ اس قانون کو چیلنج کرنے والی مفاد عامہ کی درخواستوں کے ساتھ ہماری اس درخواست کو بھی منظور کر لیا جائے، جس میں عبادت گاہوں سے متعلق قانون 1991 کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا گیا ہے۔ All India Muslim Personal Law Board
بورڈ کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ مفاد عامہ کی درخواستوں میں دراصل ایک ایسے قانون کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے جس پر خود سُپریم کورٹ کاماننا ہے کہ 'یہ بھارت کے اس عزم کا اظہار ہے کہ ملک میں تمام مذاہب برابر ہیں' عدالت عظمیٰ نے آگے کہا تھا کہ 'یہ قانون دراصل اثبات ہے اس بات کا کہ یہ اسٹیٹ کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ ملک کے تمام مذاہب کو یکساں احترام اور تحفظ فراہم کیا جائے نیز یہ دستور ہند کی بنیادی خصوصیت بھی ہے'۔
بورڈ کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس قانون (1991) کی بنیادی حیثیت اور اس پر عدالت عظمیٰ کا ریمارکس کہ یہ دستور ہند کی بنیاد ہے، اگر درخواست دہندگان کے اس دعویٰ کو تسلیم کر لیا جائے تو اس سے ان کے بنیادی حقوق سلب ہوتے ہیں اور ان کی درخواست کو قبول کر لیا گیا تو اس سے نئے مسائل اور تنازعات کھڑے ہو جائیں گے۔ دراصل پی آئی ایل کے پس پردہ درخواست دہندگان کے سیاسی مقاصد کار فرما ہیں۔ اس طرح کے تنازعات سماج کے تانے بانے کو متاثر کرتے ہیں اور سماج کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کر دیتے ہیں، جس کا مظاہرہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد قتل و غارت گری کی شکل میں سامنے آیا تھا۔
درخواست میں کہا گیا کہ 1991 کے قانون کو لانے کا بنیادی مقصد ہی یہ تھا کہ مستقبل میں اس طرح کے مبینہ دعوؤں پر قدغن لگائی جاسکے۔ مزید کہا گیا کہ مذہبی عبادت گاہوں سے متعلق تنازعات بہت حساس ہوتے ہیں، جو قانون کی بالادستی کو نہ صرف چیلنج کرتے ہیں بلکہ سماج کے امن و سکون کو بھی درہم برہم کر دیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:Gyanvapi Masjid Row: جمعیۃ علماء ہند نے1991 ایکٹ کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی