نئی دہلی: قومی دارالحکومت دہلی میں رہنے والے افغان مہاجرین کے بچوں کے لیے بھوگل میں چلنے والا سید جمال الدین افغان ہائی اسکول بند ہونے کے دہانے پر ہے۔ 15 اگست 2021 کو جب امریکا افغانستان سے نکلا اور کابل طالبان کے کنٹرول میں آیا تو افغان حکومت کی جانب سے فنڈنگ بھی بند ہوگیا۔ تب بھارت کی وزارت خارجہ نے اسکول کی مالی مدد کی اور اسکول کو بند ہونے سے بچایا۔ اب افغانستان میں طالبان کی حکومت نے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگاتے ہوئے اس اسکول کی پہچان منسوخ کردی ہے۔ اس لیے حکومت ہند کی وزارت خارجہ نے یہاں زیر تعلیم تقریباً 300 طالبات کو بھارتی بورڈز کے زیر انتظام اسکولز میں منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا ہے، تاہم اس کام میں زبان کی وجہ سے مشکل پیش آ سکتی ہے۔
افغانی طلبہ کے سامنے زبان کامسئلہ: زیر تعلیم طلبہ کے والدین کا کہنا ہے کہ اب تک ان کے بچوں نے افغانی زبان میں تعلیم حاصل کی ہے۔ انگریزی ایک مضمون کے طور پر پڑھائی جاتی ہے۔ ایسے میں اچانک انہیں انگلش میڈیم میں منتقل کرنے سے ان کے سامنے زبان کا مسئلہ پیدا ہو گا اور وہ انگریزی میں دوسرے مضامین کو اتنی آسانی سے نہیں سمجھ پائیں گے۔ والدین کا کہنا ہے کہ انگلش کے مضامین پڑھنے اور انگلش میڈیم سے دوسرے مضامین پڑھنے میں بہت فرق ہے۔
اسکول کی مدد سماجی تنظیموں پر منحصر: افغان مہاجرین کے لیے کام کرنے والے ایک افغان سماجی کارکن کا کہنا تھا کہ وہ اسکول چلانے کی کوشش کر رہے ہیں اگر بھارتی حکومت فنڈز فراہم نہیں کرتی تو کچھ سماجی تنظیموں کی جانب سے مدد لی جاتی ہے۔ اس کے لیے وہ سماجی تنظیموں سے مسلسل رابطہ کر رہے ہیں۔ امید ہے کہ جلد ہی کہیں سے فنڈنگ کا بندوبست ہو جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ سماجی تنظیموں کے ذمہ داران سے رابطوں کے علاوہ وہ وزارت خارجہ، حکومت ہند کے حکام سے بھی رابطے میں ہیں اور اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اسکول بند نہ ہو۔