اگر ذرائع پر یقین کیا جائے تو 100 سرکاری قیدیوں کو 20 سرکاری فوجیوں کے ساتھ تبدیل کیا جائے گا۔
افغانستان کی دارالحکومت کابل میں طالبان نے جمعرات کو اپنے قیدیوں کا پہلا دستہ تبدیل کرنے کے لیے تیار ہوگیا ہے۔
اطلاع کے مطابق اس توقع سے دونوں فریقین کے مابین انٹرا افغان مذاکرات کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔
ایک نیوز نے بدھ کے روز ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ پیشرفت افغان حکومت اور طالبان کے مابین دو ویڈیوز ملاقاتوں کے بعد سامنے آئی ہے، اور اسی سلسلے میں منگل کے روز طالبان کا تین رکنی وفد اس تبادلہ خیال کے لیے کابل پہنچا تھا۔
جمعرات کو یہ اعلان اس وقت سامنے آیا ہے جب افغان حکومت نے 21 رکنی امن مذاکراتی ٹیم تشکیل دینے کا اعلان کیا، تاکہ قیدیوں کی رہائی کے بعد وہ طالبان سے براہ راست بات چیت کرسکیں واضح رہے کہ سنہ 2001 میں امریکی حملے کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب طالبان کو براہ راست افغان سرکاری عہدیداروں سے ملاقات کے لیے کابل بلایا گیا۔
اس کے بعد جمعرات کو یہ اعلان اس وقت سامنے آیا ہے جب افغان حکومت نے 21 رکنی امن مذاکراتی ٹیم تشکیل دینے کا اعلان کیا، تاکہ قیدیوں کی رہائی کے بعد وہ طالبان سے براہ راست بات چیت کرسکیں۔
واضح رہے کہ 29 فروری کو دوحہ میں امریکی، طالبان معاہدے کے تحت قیدیوں کی رہائی کا عمل اصل میں 10 مارچ سے پہلے ہونا تھا، لیکن اس میں تاخیر کی گئی، جس کی پیروی کرنے کے طریقہ کار پر اختلافات اور باغیوں کی جانب سے حفاظتی ضمانتوں کے التوا کے بعد اس پر عمل نہیں کیا گیا۔
امریکی طالبان معاہدے کے مطابق پہلے مرحلے میں پانچ ہزار باغی اور ایک ہزار سرکاری قیدیوں کو رہا کیا جانا ہے۔
یاد رہے کہ 29 فروری کو امریکہ نے افغانستان سے امریکی فوجیوں کو نکالنے کے لیے روڈ میپ کے لیے طالبان کے ساتھ معاہدہ کیا۔
واضح رہے کہ اس معاہدے پر دستخط ہونے کی تاریخ سے 135 دن کے اندر 86 ہزار امریکی فوجیوں کے انخلا کرنے کا کام شروع کیا جانا تھا۔
یاد رہے کہ فی الحال ملک میں تقریباً 14 ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں۔
خیال رہے کہ امریکہ اور طالبان کے مابین طویل مذاکرات کے بعد امن معاہدہ کیا آخر کار منظور کرلیا گیا تھا، تاہم معاہدے کے بارے میں، صدر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ مشترکہ اعلامیہ سے ملک میں مستقل امن کی راہیں کھلیں گی۔
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور طالبان نے آج امن معاہدے پر دستخط کر دیے گئے تھے، امریکہ اور طالبان کے مابین مذاکرات کے بعد امن معاہدے پر دستخط ہوگئے، اور اس کا متن جاری کردیا گیا۔
وہیں دوسری جانب ایران نے افغانستان کے امن معاہدہ کا حوالہ دیتے ہوئے امریکہ کو طالبان کے آگے ہتھیار ڈالنے کے مترادف قرار دیا ہے تھا۔
ایران کے وزیرخارجہ محمد جواود ظریف نے ٹوئٹ کیا ہے کہ امریکہ کو کبھی بھی افغانستان میں دخل نہیں دینا چاہیے تھا، لیکن اس کے باوجود امریکہ دخل دیا اور اور اس کے لیے ہر کسی کو مورد الزام ٹھہرایا اور اب 19 برس تک رسوا ہونے کے بعد اب اس نے طالبان کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔