نئی دہلی: سپریم کورٹ نے بدھ کے روز 2020 کے دہلی فسادات کیس میں طالب علم عمر خالد کی ضمانت کی اپیل پر سماعت 24 جولائی تک ملتوی کر دی ہے۔ کیونکہ دہلی پولیس نے جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس ایم ایم سندریش کی بنچ کے سامنے سماعت کے دوران عرضی کا جواب دینے کے لیے مزید وقت طلب کیا تھا۔ دہلی پولیس کی طرف سے پیش ہوئے ایڈوکیٹ رجت نائر نے بنچ سے کہا کہ اس معاملے میں جوابی حلف نامہ داخل کرنے کے لیے کچھ وقت درکار ہیں۔
وہیں عمر خالد کی نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل کپل سبل نے کہا کہ ضمانت کے معاملے میں کیا جواب داخل کیا جائے؟ وہ دو سال اور 10 ماہ سے جیل میں ہے۔ اس پر نائر نے کہا کہ وہ اس معاملے میں جواب داخل کرنے کے لیے کچھ وقت مانگ رہے ہیں۔ بنچ سے کچھ وقت دینے کی درخواست کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چارج شیٹ بہت بڑی ہے اور یہ ہزاروں صفحات پر مشتمل ہے۔ بنچ نے کہا کہ اسے آج تیار ہونا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور اس معاملے کی سماعت 24 جولائی کو مقرر کردی۔
واضح رہے کہ 18 مئی کو ہی سپریم کورٹ نے عمر خالد کی عرضی پر دہلی پولیس سے جواب طلب کیا تھا۔ اپنی اپیل میں عمر خالد نے دہلی ہائی کورٹ کے اس حکم کو چیلنج کیا ہے جس میں اسے اس کیس میں ضمانت دینے سے انکار کر دیا گیا تھا۔ گزشتہ سال 18 اکتوبر کو ہائی کورٹ نے ان کی ضمانت کی عرضی کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا تھا کہ وہ دوسرے شریک ملزمان کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں اور ان کے خلاف لگائے گئے الزامات پہلی نظر میں سچ ہیں۔ ہائی کورٹ نے یہ بھی کہا تھا کہ پہلی نظر میں ملزمین کی کارروائیاں انسداد دہشت گردی قانون UAPA کے تحت دہشت گردانہ کارروائیوں کے طور پر اہل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
قابل ذکر ہے کہ عمر خالد، شرجیل امام اور کئی دیگر کے خلاف فروری 2020 کے دہلی فسادات کے دوران مبینہ ماسٹر مائنڈ کے طور پر کام کرنے پر UAPA اور تعزیرات ہند کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ اس فساد میں 53 افراد ہلاک جبکہ 700 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ عمر خالد، جسے دہلی پولیس نے ستمبر 2020 میں گرفتار کیا تھا، نے اس بنیاد پر ضمانت کی درخواست کی تھی کہ اس کا تشدد میں نہ تو کوئی مجرمانہ کردار ہے اور نہ ہی اس کیس میں کسی دوسرے ملزم کے ساتھ کوئی سازشی تعلق ہے۔ ہائی کورٹ کے سامنے دہلی پولیس نے عمر خالد کی ضمانت کی عرضی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کی طرف سے کی گئی تقریر بہت اشتعال انگیز تھی۔ اس میں بابری مسجد، تین طلاق، کشمیر، مسلمانوں پر مبینہ ظلم اور شہریت (ترمیمی) قانون جیسے مسائل کو اٹھایا گیا۔