کورونا کے مشکل وقت میں فرنٹ لائن ورکرز کے ساتھ۔ ساتھ سرکاری ملازمین بھی مسلسل خدمات پیش کررہے ہیں۔ چھتیس گڑھ میں کورونا کی وجہ سے اب تک 900 سے زیادہ افسر اور ملازمین ہلاک ہوگئے ہیں۔ ملازمین کی یونینس کا کہنا ہے کہ سرکاری ملازمین کو کورونا انفیکشن کے بعد علاج کے لئے مشقت کرنی پڑ رہی ہے۔ اسپتال میں داخل ہونے کے بعد میڈیکل ری امبرسمنٹ یعنی میڈیکل کی فراہمی کو لیکر بھی حکومتی گائڈ لائن میں کوئی رعایت نہیں مل پا رہی ہے۔ وبائی مرض کی وجہ سے متعدد کنٹریکٹ ورکرز کی بھی موت ہو چکی ہے۔ ایسی صورتحال میں حکومت سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ کنٹریکٹ ملازمین کو پنشن اور دیگر حقوق دیئے جائیں۔
کورونا کے دوران فرنٹ لائن پر کام کر رہے محکمہ صحت، محکمہ اسکول ایجوکیشن، محکمہ داخلہ، محکمہ آبی وسائل جیسے محکموں کے ملازمین کی ایک بڑی تعداد میں موت ہو چکی ہے۔ وزارت، ڈائرکٹوریٹ، کلکٹریٹ، کارپوریشنز، کمیشن اور فیلڈ اسٹاف سے وابستہ ملازمین بھی اپنی جان گنوا چکے ہیں۔ ایسی صورتحال میں اہل خانہ کے سامنے معاش کا بحران ہے۔ ملازمین کی تنظیموں نے بھی ریاستی حکومت سے کمپیشینیٹ اپائمنٹ تقرری میں رعایت کا مطالبہ کیا ہے۔ ملازمین کی تنظیموں نے ریاستی حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ قواعد میں نرمی کریں اور متاثرہ خاندانوں کو روزگار فراہم کیا جائے۔
چھتیس گڑھ تھرڈ کلاس گورنمنٹ ایمپلائز یونین کے ریاستی صدر وجے کمار جھا نے بتایا کہ کورونا مدت کے دوران اب تک ریاست میں 900 سے زیادہ سرکاری افسر، ملازمین کی موت ہوچکی ہے۔ یہ صرف سرکاری اعداد و شمار ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے کنٹریکٹ ورکرز کی بھی موت ہو چکی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مسلسل بڑھتے ہوئے انفیکشن اور بہت سی اموات کے باوجود وزارت میں ملازمین کام پر آرہے ہیں۔ عام انتظامیہ کی جانب سے بھی اس کے لئے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔ احکام میں ملازمین کو ان کی اپنی گاڑیوں سے بلایا جارہا ہے۔ اس کا اثر کنٹریکٹ ورکرز پر زیادہ پڑ رہا ہے۔ 10 سے 12 ہزار روپے تنخواہ پانے والے کنٹریکٹ ورکرز کی تنخواہ کا نصف سے زیادہ حصہ رائے پور وزارت جانے میں خرچ ہو جارہا ہے۔
کنٹریکٹ ورکرز پر زیادہ اثر
وجئے جھا نے بتایا کہ اگر ان کنٹریکٹ ورکرز کورونا سے موت ہو جاتی ہے تو ان کے اہل خانہ کو نہ تو کمپیشینیٹ اپائمنٹ ملے گی اور نہ ہی پنشن کی سہولت۔ ایسی صورتحال میں ان کے اہل خانہ کے سامنے بہت مشکل صورتحال ہے۔