مسلم خواتین کے لیے اس کے ذریعے گھر بیٹھے آمدنی کا بہتریں ذریعہ ہوگیا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ ہر طرح کی ٹوپی اور ہینڈ بیگ پر خواتین کڑھائی کرتی ہیں۔ بالخصوص گیا سے مینوفیکچر ہونے والی " پلے کی ٹوپی" جو خانقاہوں اور عام مسلمانوں سمیت شادیوں اور سیاسی رہنماؤں کی ملن تقریب میں خوب استعمال ہوتی ہیں اور پہنی جاتی ہیں۔ اس " پلے والی ٹوپی" کو مسلم خواتین ہی تیار کرتی ہیں۔
دو سو مکانات پر واقع ہے گاؤں ترلوکی چک گاؤں
دو سو مکانات پر واقع اس گاؤں کے ہر گھر کی عورتیں ان میں آٹھ سال کی بچی سے لے کر 80 برس کی خاتون سبھی ٹوپی بنانے میں شامل ہیں، حالانکہ یہاں کی خواتین کے ہنر کی نہ تو قدر کی گئی اور نہ ہی ان کی پہچان ضلع سے باہر بن سکی جس کا ملال ان خواتین کو بھی ہے۔
قریب 30 برس پہلے شہر گیا کی ایک خاتون نے گاؤں پہنچ کر یہاں کی خواتین کو تربیت دے کر ٹوپی بنانے کے کام کو شروع کیا تھا جو آج تک جاری ہے، لیکن کورونا وبا کی وجہ سے گزشتہ دو برسوں سے ٹوپی کا کاروبار بھی متاثر ہوا ہے۔
گاؤں میں گھروں کے باہر خالی اوقات میں خواتین پانچ دس کی تعداد میں ایک ساتھ بیٹھ کر ٹوپی پر سوئی دھاگے سے کڑھائی وسلائی کرتی ہیں، یہاں کی زیادہ تر عورتیں پڑھی لکھی نہیں ہیں تاہم وہ گھر کے کام کاج کی ذمہ داریوں کو بخوبی انجام دینے کے ساتھ کنبے کی آمدنی کے ذرائع بڑھانے کے لیے مردوں کے شانہ بشانہ ہیں۔
ایک خاتون روزانہ 20 سے 40 ٹوپیوں پر کڑھائی اور سلائی و گل بوٹے ٹانکنے کے کام کرلیتی ہیں۔ حالانکہ باریک بینی والی اس کاریگری میں ان کی مزدوری انتہائی کم ہے۔
بیس ٹوپی کی ایک " کوڑی" ہوتی ہے جس کے عوض میں انہیں سولہ روپے سے 25 روپے ملتے ہیں۔ گھر کی اگر پانچ عورتیں بناتی ہیں تو انہیں 10 ہزار روپے سے 20 ہزار روپے کی آمدنی ماہانہ ہوجاتی ہے۔
البتہ ایک ٹوپی کی مزدوری کے اعتبار سے دیکھا جائے تو صرف اسی پیسے سے لیکر بیس پیسے ملتے ہیں جو آج کے وقت میں کافی کم ہیں۔
گھر بیٹھے کام ملنا اچھا ہے
ٹوپی پر کڑھائی و گل بوٹے ٹانکنے کے کام کرنے والی خواتین نے ای ٹی وی بھارت سے کہا کہ کہ مزدوری تو کم ہے تاہم خوشی اس بات کی ہے کہ گھر بیٹھے ان کے پاس آمدنی کا ذریعہ ہے۔ انہیں اس کام کے لیے کہیں باہر نہیں جانا پڑتا، ٹوپی کی تجارت کرنے والے کپڑا اور دھاگا ان کے گھر پر لاکر دستیاب کراتے ہیں اور ہفتے میں ایک مرتبہ ان کی مزدوری دیکر ٹوپی لے کر جاتے ہیں۔
حالانکہ انہیں ملال اس بات کا ہے کہ ان کے کام کی پہچان باہر تک نہیں ہوسکی۔ اگر یہاں ٹوپی کی صنعت کے لیے وسائل دستیاب کرائے جائیں تو بڑے پیمانے پر کاروبار ہوسکتا ہے کیونکہ یہ ٹوپی ملک کی مختلف ریاست تک جاتی ہے۔
رمضان اور تہواروں کے موقع پر گیا کی پلے والی ٹوپی بنگلہ دیش، انڈونیشیا سمیت کئی ملکوں میں بھی سپلائی ہوتی ہے۔ گھر کے باہر بیٹھ کر کام کررہی 80 سال کی بزرگ خاتون سائرہ خاتون کہتی ہیں کہ وہ 20 سالوں سے اس کام کو کررہی ہیں اور انہیں اس پر فخر ہے کہ اس عمر میں بھی وہ کسی کی محتاج نہیں ہیں بلکہ اپنی کفالت خود کرسکتی ہیں۔