اردو

urdu

ETV Bharat / state

ارریہ: 73 برس سے پل کی تعمیر کے انتطار میں گاؤں والے - پل کی تعمیر کے انتطار میں گاؤں والے

آج کی ترقیاتی دور میں بھی کسی علاقے کے لوگ صرف ایک عدد پل نہ ہونے سے پچھڑے بن کا شکار ہوں تو سمجھ لیجیے وزیراعظم سے لیکر ریاست کے وزیر اعلیٰ کے قول میں کتنی صداقت ہے کہ بہار کا ایک ایک گاؤں اسمارٹ گاؤں بن گیا ہے۔ سیمانچل خطہ کے ضلع ارریہ میں شہر سے محض 9 کلوں میٹر واقع جھمٹا پنچایت میں آباد جھمٹا، مہیشا کول، بانس باڑی، بٹور باڑی، جھوا کے لوگ آج بھی ایک عدد پل کو ترس رہے ہیں۔

villagers troubled due to no bridge in jhamta village araria
پل کی تعمیر کے انتطار میں گاؤں والے

By

Published : Sep 17, 2020, 5:29 PM IST

یہ علاقہ 20 سے 25 ہزار لوگوں پر مشتمل ہے۔ یومیہ زندگی کی ضروریات جان ہتھیلی پر رکھ کر ناؤں کے سہارے ندی کو پار کر کی جاتی ہے۔ اس ندی میں آئے دن حادثات ہوتے ہیں، نہ جانے کتنے لوگ اس ندی میں سما گئے، جن کی لاش تک نہ مل سکی۔ باوجود اس کے یہاں کے مقامی ایم پی اور ایم ایل اے و دیگر لیڈران اس پل کے تئیں سنجیدہ اور فکر مند دکھائی نہیں دیتے۔

دیکھیں ویڈیو

جب جب انتخابی موسم آتا ہے تو لیڈران ووٹ حاصل کرنے کے لیے پل بنانے کا وعدہ اور یقین دہانی تو کراتے ہیں، جیسے ہی انتخاب ختم ہوتا ہے پھر سارے وعدے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ اب ایک بار پھر ریاستی انتخاب سامنے ہیں اور مختلف پارٹی کے لیڈران ایک بار پھر یہاں پل بنانے کو لیکر ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے، مگر اس بار یہاں کی عوام بھی بیدار ہے۔

ایک پل نہ ہونے سے اس علاقے کے لوگ طرح طرح کی مصیبتوں سے گزرتے ہیں، عام دنوں میں لوگ چندہ وصول کر چچری کا پل وقتی طور پر بناتے ہیں، مگر جیسے بارش اور سیلاب کا موسم آتا ہے چچری بہہ جاتی ہے اور علاقے کے لوگوں کا رابطہ شہر سے ٹوٹ جاتا ہے، پھر آمد و رفت کے لئے واحد ناؤں کا سہارا ہوتا ہے۔

جسے گاؤں کے لوگ ہی چلاتے ہیں، اسی طرح ہر سال کے چھ مہینے اسی درد اور کرب سے یہاں کے لوگ گزرتے ہیں اور درمیان میں ناؤں ڈوبنے جیسے حادثے بھی رونما ہوتے رہتے ہیں۔ اس ندی کو پار کر جہاں آسانی سے 9 کلو میٹر طے کر شہر پہنچا جا سکتا ہے۔ وہیں پل نہ ہونے سے اور سیلاب کے دنوں لوگ 50 کلو میٹر کی دوری طے کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

علاقے کے بزرگ محمد حنیف بتاتے ہیں کہ یہ اس علاقے کا المیہ ہے کہ پل نہ ہونے سے لوگ یہاں رشتہ داری تک کرنے کو تیار نہیں ہوتے، دیر شب اگر کسی مریض کو ہسپتال لے جانے کی ضرورت پیش آ جائے تو مریض کے جان کے ساتھ خود کے جان کو بھی داؤں پر لگانا پڑتا ہے۔ وہیں پل نہ ہونے کا اثر یہاں کے نونہالوں پر بھی پڑ رہا ہے، جو اسکول و دیگر تعلیمی ادارے بالکل کٹے ہوئے ہیں۔

ناؤں کے سہارے ندی کو پارکو پار کرتے ہیں گاؤں کے لوگ

مزید پڑھیں:

وزیراعظم کے پیکیج سے بہار کو کچھ بھی نہیں ملا

علاقے کے نوجوان بتاتے ہیں کہ یہاں کے بچے سال میں صرف چار مہینے اسکول جاتے ہیں، چھ مہینہ چچری بہہ جانے سے اور ناؤں ڈوبنے کے ڈر سے والدین بچوں کو اسکول نہیں بھیجتے۔ ہر پانچ سال پر انتخاب کے دنوں پل انتخابی موضوع تو بنتا ہے، لیڈران یہاں کے لوگوں کو پل بنائے جانے کا حسین خواب دکھا کر ووٹ تو حاصل کر لیتے ہیں مگر یہ خواب مونگیری لال کے حسین خواب سے آگے نہیں بڑھتا۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details