حضرت سیدنا پیر منصور علیہ الرحمہ کا سالانہ عرس انتہائی تزک و احتشام کے ساتھ منعقد ہوا حالانکہ کورونا وائرس کی وجہ سے اس بار بھی بڑے پیمانے پر اس کی تقریب منعقد نہیں ہوئی۔
بعد نماز فجر قرآن خوانی ہوئی جس میں جامعہ برکات منصور کے طلبا و اساتذہ شریک ہوئے۔ اس کے ساتھ چادر پوشی و گل پوشی کی گئی۔
حضرت پیر منصور علیہ الرحمہ کا آستانہ شہر گیا کے قلب میں واقع ہے۔ حضرت پیر منصور علیہ الرحمہ کے آستانہ کی تاریخ قریب تین سو برس قدیم ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ جس وقت حضرت پیر منصور علیہ الرحمہ پیر منصور محلے میں تشریف لائے تھے۔ وہاں آبادی نہیں تھی۔ کچہری اور کلکٹریٹ کے پاس واقع پیر منصور محلے کا نام حضرت پیر منصور علیہ الرحمہ کے نام پر انگریزی حکومت کے دوران رکھا گیا تھا۔
جامعہ برکات منصور کے ناظم اعلیٰ مولانا سید عفان جامی نے عرس کے متعلق بتایا کہ عرس کی تقریب تو بڑے پیمانے پر منعقد نہیں ہوئی تاہم جو عرس کے موقع پر روایت رہی ہے ان سبھی رسموں کو ادا کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک بار پھر ملک میں کورونا وائرس کے معاملات بڑھے ہیں ہے اسی کا خیال رکھتے ہوئے بڑے پیمانے پر عرس نہیں کیا گیا ہے۔
اس موقع پر چادر پوشی وہ گل پوشی کی تقریب کے بعد محفل سیرت النبی منعقد ہوئی جس کی سرپرستی خانقاہ منعمیہ رام ساگر کے سجادہ نشین حضرت مولانا سید صباح الدین منعمی نے کی جبکہ صدارت جامعہ برکات منصور کے سربراہ اعلیٰ مولانا تبارک حسین رضوی نے کی۔
مولانا منصور فریدی، مولانا سید عفان جامی اور دیگر علماء نے خطاب کیا۔ اس موقع پر مولانا صباح الدین منعمی نے کہا کہ خدا کے نیک بندوں اور صوفیوں نے کسی خاص مذہب کے لوگوں کی فلاح کا کام کرنے کے بجائے پوری انسانیت کی نجات کے لئے اپنا قیمتی وقت خرچ کیا ہے۔
اس موقع پر جامعہ برکات منصور کے بانی اور حضرت سیدنا پیر منصورحمۃ اللہ علیہ کے آستانے کی منفرد پہچان بنانے کے لیے بے انتہا خدمات انجام دینے والے مفکر ملت حضرت علامہ سید اقبال احمد حسنی علیہ الرحمہ کی خدمات کو یاد کرتے ہی پورا ماحول غمگین ہوگیا۔
واضح رہے کہ مولانا سید اقبال احمد حسنی حضرت پیر منصور علیہ الرحمہ کے آستانہ میں واقع جامع مسجد کے خطیب وامام کی حیثیت سے چالیس برسوں تک خدمات انجام دیں۔
مزید پڑھیں:
مولانا علیہ الرحمہ کا گزشتہ برس چودہ جولائی کو انتقال پر ملال ہوگیا تھا۔ مولانا علیہ الرحمہ اپنی حیات میں حضرت پیر منصور کا عرس بڑے پیمانے پر کراتے تھے اس موقع پر جلسہ عام بھی ہوتا تھا جس میں ملک کے نامور علماء وشعرا اور مشائخ عظام کی شرکت ہوتی تھی۔