پٹنہ:22 مارچ 1912 کو بنگال سے الگ ہو کر ایک نئی ریاست 'بہار' کا قیام عمل میں آیا۔ اس کے بعد سے بہار حکومت کی جانب سے ہر سال 22 مارچ کو ریاست بھر میں یوم بہار کے موقع پر تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس مرتبہ بھی یوم بہار کے موقع پر پٹنہ کے گاندھی میدان کو دلہن کی طرح سجایا گیا ہے۔ تین دنوں تک چلنے والے اس پروگرام کا افتتاح کل وزیر اعلیٰ نتیش کمار و نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو نے کیا تھا۔ گاندھی میدان میں منعقد اس میلے میں مختلف محکوں کی جانب سے درجنوں اسٹال لگائے گئے ہیں۔ گاندھی میدان کے چاروں طرف اندر اور باہر داخل ہونے کے لئے الگ الگ گیٹ بنائے گئے ہیں لیکن افسوس کہ اس تقریب سے اردو زبان کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ جب کہ اردو بہار کی دوسری سرکاری زبان ہے۔ گاندھی میدان کے گیٹ یا کسی اسٹال پر اردو کے نام پر نہ کوئی سائن بورڈ ہے نہ تختی ہے اور نہ گیٹ پر اردو میں یوم بہار درج ہے۔ حالانکہ اقتدار میں بیٹھے لوگ اردو کی دہائی دیتے نہیں تھکتے لیکن یوم بہار کے موقعے پر اردو کے ساتھ حکومتی سطح سے جو تعصب برتا گیا اس سے اردو نواز کہی جانے والی نتیش حکومت کی قلعی کھل گئی ہے۔
مذکورہ معاملے پر ای ٹی وی بھارت نے جب مسلم رہنماؤں کی توجہ مبذول کرائی تو زیادہ تر لوگ اس سے ناواقف تھے۔ جب کہ کئی رہنماؤں نے اسے اردو کے ساتھ سازش قرار دیا۔ ایم آئی ایم کے ریاستی صدر و رکن اسمبلی اخترالایمان نے کہا کہ جب حکومت ہی اردو کے قتل کرنے پر آمادہ ہے تو اردو رہے یا نہ رہے اس سے کسی کو کیا سروکار۔ صحیح بات یہ ہے کہ اردو زبان آج بہار میں سولی پر لٹکی ہوئی ہے اور اس کے ذمہ دار اسی حکومت میں بیٹھے لوگ ہیں۔ جو اردو کے فروغ کا دم بھرتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اردو زبان اس وقت پوری طرح سے زوال پذیر ہے۔ راشٹریہ جنتا دل کے سابق رکن قانون ساز کونسل ڈاکٹر تنویر حسن نے کہا کہ یہ انتہائی افسوس ناک معاملہ ہے اگر حکومت کی سطح سے لاپرواہی ہوئی ہے تو اس کی جانچ ہونی چاہیے اور قصوروار کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے۔ تنویر حسن نے کہا کہ اکثر اس طرح کی بات سامنے آتی ہے کہ سرکاری پروگراموں سے اردو غائب رہتی ہے، حکومت میں جو وزراء ہیں انہیں بھی اس جانب توجہ دینی چاہیے کہ آگے اس طرح کا معاملہ پیش نہ آئے۔